لوگوں کے بنک اکاونٹ سے پیسے نکال کر بانڈ خریدے جاتے ہیں اور پتہ نہیں کیا کیا ہوتا ہو گا۔ چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہاہے کہ لوگوں کے بنک اکاونٹ سے پیسے نکال کر بانڈ خریدے جاتے ہیں اور پتہ نہیں کیا کیا ہوتا ہو گا، اکاونٹ ہولڈر کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ اس کے پیسے کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟۔جمعرات کو چیف جسٹس پاکستان نے یہ ریمارکس ایک نجی بنک کے آپریشن مینیجرکی سزا کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران دیے ۔سپریم کورٹ نے نجی بنک کے آپریشن مینیجر امان اللہ فارق کی بقایا سزا ختم کر دی جبکہ 90 لاکھ جرمانہ برقرار رکھا۔عدالتی حکم میں کہا گیاہے کہ ملزم آٹھ نو سال قید کاٹ چکا ہے،ٹرائل کورٹ نے 2011 میں ملزم امان اللہ کو 14 سال قید اور 90 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ 2016 میں لاہورہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھاتھا۔دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ امان اللہ فاروق نے اکاونٹ ہولڈر کو بتائے بغیر اکاونٹ سے 90 لاکھ روپے کیوں نکال لیے؟ملزم کے وکیل نے جواب دیا کہ امان اللہ فارق نے برانچ مینیجر کے کہنے پر رقم نکالی۔اس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا اس نے کہا اور آپ نے کر دیا؟اگر وہ کہتا کے قتل کر دو تو آپ کر دیتے؟چیف جسٹس نے کہا آپریشن مینیجر کے پاس پبلک کے پیسے ہوتے ہیں،یہ ایک ذمہ دار پوسٹ ہے اس پوسٹ پر بیٹھے افسر کو پتہ ہوتا ہے کہ کس کے پیسے ہیں۔ اکاﺅنٹ ہولڈر کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ اس کے پیسے کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔