مسلم لیگ نون پنجاب میں گورنر راج لگنے کے بتیس ماہ بعد پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کے ساتھ کل سے براہ راست سیاسی تصادم کا آغاز کرے گی۔
پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے درمیان باقاعدہ سیاسی تصادم کا آغاز کل سے ہوگا۔ مسلم لیگ نون پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کو ملک کی معاشی، سیاسی اور دفاعی اعتبار سے سیکورٹی رسک قرار دیتے ہوئے تحریک بقائے پاکستان کا آغاز کر چکی ہے اگرچہ اس احتجاجی تحریک کا باقاعدہ آغاز نون لیگ کے صدر میاں نواز شریف نے رواں ماہ ڈیرہ غازی خان کے احتجاجی جلسے سے کر دیا تھا لیکن صرف دو ہفتوں کے دوران سیاسی ماحول میں اس حد تک تلخی آگئی کہ دونوں جانب سے ٹاپ لیڈرشپ نے ایک دوسرے پر ذاتی نوعیت کے حملے کئیے اور ان حملوں کی وجہ پاکستان کا مفاد قرار دیا۔ احتجاجی تحریک کے سیاسی پس منظر سے ایک طرف نون لیگ کی ریلی جمعے کی دوپہر دو بجے ناصر باغ لاہور سے شروع ہو کر براہ راست لوئر مال کچہری چوک کربلا گامے شاہ اور معروف صوفی بزرگ داتا گنج بخش کے مزار سے ہوتی ہوئی بھاٹی گیٹ پہنچے گی، جہاں وزیر اعلٰی محمد شہباز شریف ریلی کے شرکا سے خطاب کریں گے۔ ریلی میں عوام کی کثیر تعداد میں شرکت کیلئے جہاں صوبائی دارالحکومت لاہور سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ نون کے تمام ارکان قومی و صوبائی ارکان متحرک ہیں وہیں وزیراعلٰی پنجاب کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف جن کے قومی اسمبلی کے حلقے میں اس ریلی کا انعقاد کیا جا رہا ہے وہ تمام تیاریوں کی خود نگرانی کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون کے مطابق جمعے کے روز ہونے والی یہ احتجاجی ریلی کسی چیلنج سے کم نہیں کیونکہ ریلی کے فوری بعد حکمران لیگ کے نئے حریف عمران خان بھی لاہور میں ہی احتجاجی جلسے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ سیاسی اعتبار سے بلاشبہ لاہور کو مسلم لیگ نون کا لاڑکانہ کہا جاسکتا ہے جہاں گذشتہ دو دہائیوں سے نون لیگ انتخابی سیاست میں ناقابل شکست تصور ہوتی ہے تاہم احتجاجی سیاست میں مسلم لیگ نون کو کتنی عوامی پذایرائی حاصل ہوگی اس کا فیصلہ کل شام تک ہو جائے گا۔۔