افغانستان کے جنوبی صوبہ قندھارمیں اجتماعی قبردریافت, 12 افراد کی باقیات برآمد
افغانستان کے جنوبی صوبہ قندھارمیں ایک اجتماعی قبردریافت ہوئی ہے اور اس میں سے 12 افراد کی باقیات برآمد ہوئی ہیں۔ پاکستان کی سرحد سے متصل قصبے اسپن بولدک میں چندروز قبل دیہاتیوں کو یہ قبر ملی تھی۔اس علاقے میں گذشتہ سال طالبان کے اقتدار پر قبضے سے قبل سابق افغان حکومت کی فورسز اورطالبان جنگجوؤں کے درمیان شدید لڑائی ہوئی تھی۔ طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ یہ لوگ نو سال قبل اس وقت مارے گئے تھے جب امریکاکی حمایت یافتہ حکومت اقتدار میں تھی لیکن اس مقام کی آزادانہ تحقیقات نہیں کی گئیں۔ انھوں نے کہا کہ ان افراد کو سابق ظالم کمانڈر جنرل رازق نے دیہات سے گرفتارکیا تھا۔وہ سب عام شہری تھے اور انھیں قتل کرکے اس اجتماعی قبر میں دفن کردیا گیا تھا۔وہ جنوبی صوبہ قندھار کے سابق پولیس چیف جنرل رازق کا حوالہ دے رہے تھے۔ ترجمان نے کہا کہ ہم اس اجتماعی قبرکے معاملہ کا جائزہ لے رہے ہیں۔اس کے بعد ہم یہ فیصلہ کریں گے کہ کس طرح کی تحقیقات کی جانا چاہیے۔ صوبہ قندھار کے گورنرکے ترجمان حاجی زید نے بتایا کہ باقیات کو قریب ہی دوبارہ دفن کردیا گیا ہے، ان کے علاوہ ایک اور شخص کی لاش بھی ملی ہے اور وہ ایک الگ بے نشان قبر دفن تھی۔ افغانستان میں انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندے رچرڈ بینیٹ نے ٹویٹ کیا کہ ’’یہ ضروری ہے،ان باقیات کے ساتھ چھیڑچھاڑ نہ کی جائے اور فرانزک جانچ تک انھیں مزید نقصان نہ پہنچایا جائے۔ طالبان حکام کی جانب سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دیہاتی لوگ ہڈیوں کے ڈھیر کے گرد جمع ہیں۔ یادرہے کہ جنرل عبدالرازق کو اکتوبر2018 میں افغانستان میں اس وقت کے اعلیٰ امریکی کمانڈرجنرل اسکاٹ ملر کے ساتھ ملاقات کے چند منٹ بعد ایک محافظ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے رازق کو نشانہ بنایا تھا۔ وہ قندھار اور ہمسایہ صوبوں میں طالبان کے ایک بے رحم حریف ہونے کی شہرت رکھتے تھے۔رازق کے بھائی تدین خان نے طالبان کے الزامات کو مسترد کردیا ہے۔ ماضی میں قندھار پولیس کے سربراہ کے طور پررازق کی جگہ لینے والے تدین خان نے ٹیلی فون پر ایک مختصر تبصرے میں فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا:’’یہ ہمارے خاندان کو بدنام کرنے کی ایک کوشش ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے ان ہلاکتوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔تنظیم کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر پیٹریشیا گروسمین نے ٹویٹ کیا کہ اجتماعی قبروں کی دریافت کے بعد حکام کے لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ وہ انتقامی کارروائیوں کو روک دیں۔ طالبان نے گذشتہ سال 15 اگست کوامریکا کی قیادت میں عالمی فوج کے عجلت میں انخلا کے بعد کابل میں اقتدار پر قبضہ کر لیا تھااور سابق صدراشرف غنی کی حکومت کے تحت سرکاری اہلکاروں اور فوجی دستوں نے شہروں کوخالی کردیا تھا، لیکن اسپن بولدک اوراس کے آس پاس کے علاقوں میں دونوں فریقوں کے درمیان مہلک جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں۔واضح رہے کہ قندھاراوردوسرے جنوبی صوبوں کو طالبان تحریک کا گڑھ سمجھاجاتا ہے۔