ریکوڈک ریفرنس سماعت: ’پاکستان کو 90 کروڑ ڈالر جرمانہ ادا کرنا ہے‘

سپریم کورٹ میں ریکوڈک منصوبے پر دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران سرکاری کمپنیوں کے وکیل نے کہا ہے کہ منصوبے میں پاکستان کو 4.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے علاوہ 90 کروڑ ڈالر جرمانہ بھی ادا کرنا ہے۔چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے ریکوڈک منصوبے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔کمپنی کے وکیل مخدوم علی خان نے ریکوڈک منصوبے کے ماحول دوست ہونے کے عدالتی سوالات پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ریکوڈک منصوبے میں تمام تر ماحولیاتی تحفظات کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالت نے ریکوڈک منصوبے کے لیے استعمال ہونے والے پانی کا سوال کیا تھا، کمپنی جو پانی استعمال کرے گی وہ جان داروں کے استعمال کے قابل نہیں، پائپ لائن سے جانے والا پانی گوادر بندرگاہ پر صاف ہونے کے بعد سمندر میں جائے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سمندر کا پانی ریکوڈک تک لا کر استعمال نہیں ہو سکتا، جس پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ ریکوڈک سے گوادر 680 کلومیٹر ہے جہاں سے روزانہ پانی لانا ناممکن ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پراجیکٹ میں مسلسل پانی کےاستعمال سے بلوچستان میں خشک سالی ہو سکتی ہے، جس پر وکیل نے کہا کہ تحقیق کے مطابق ریکوڈک میں پانی کا ذخیرہ منصوبے کی مجموعی زندگی سے زیادہ ہے۔