پیپلز پارٹی کا صدر مملکت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ
پیپلزپارٹی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں صدر مملکت عارف علوی سے عہدے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا ۔ تفصیلات کے مطابق پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سینیٹر رضا ربانی نے اسلام آباد میں شیری رحمان، مولا بخش چانڈیو ودیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں مہنگائی عروج پر ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں، ملک میں کوئی سسٹم موجود نہیں ہے، اس کی وجہ سے دہشت گردی کے واقعات سر اٹھا رہے ہیں ۔ آئی لینڈ اتھارٹی بل غیر آئینی اور غیر قانونی ہے، اس سلسلے میں سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے ۔ پارلیمنٹ کو بے توقیر کیا جا رہا ہے، قانون سازی آرڈیننس کے ذریعے ہو رہی ہے، ایسے معلوم ہوتا ہے کہ اداروں کو ایک شخص کے ماتحت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،اس صورتحال پرکیا حکمت عملی ہونی چاہیے، کوئی پوچھنے والا نہیں، حکومت کسی کو اعتماد میں نہیں لے رہی، این ایس سی کا کوئی اجلاس نہیں بلایا گیا ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ متعلقہ اداروں کو مفلوج بنایا جارہا ہے۔ پیپلزپارٹی رہنما کا کہنا تھا کہ ملک فسطائیت کی طرف بڑھ رہا ہے، ملک میں طرز حکمرانی سے اندازہ ہورہا ہے کہ ون یونٹ کی طرف بڑھا جارہا ہے، صوبوں کے اختیارات سلب کیے جا رہے ہیں، ان حالات میں پی ڈی ایم نے موجودہ حکومت سے استعفی ٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ سینیٹررضا ربانی نے کہاکہ دہشتگردی حساس اداروں پرحملوں سے شروع ہوئی، اب سویلین ادارے بھی نشانے پر ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ متعلقہ اداروں کو مفلوج بنایا جارہا ہے، جب ملک کاسربراہ کہے کہ میں جمہوریت ہوں اورٹائیگرفورس کوجنم دیا جائے توایسے ہی ہوتا ہے، وزرا قائمہ کمیٹیوں میں آتے ہی نہیں اور نہ پارلیمنٹ میں پالیسی بنائی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ملک فسطائیت کی طرف بڑھ رہا ہے، ملک میں طرز حکمرانی سے اندازہ ہورہا ہے کہ ون یونٹ کی طرف بڑھا جارہا ہے، صوبوں کے اختیارات سلب کئے جا رہے ہیں، غیرقانونی طورپر وفاقی اداروں کی نجکاری کی جارہی ہے، حکومت نے پرائیویٹائزیشن کی جو لسٹ دی اس میں روزویلٹ ہوٹل شامل ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ نا صرف حکومت بلکہ صدرمملکت کو بھی استعفیٰ دینا چاہیے ، صدر نے آرڈیننس جاری کئے، صدر نے الیکشن کمیشن کے لیے 2 ممبر منتخب کیے تھے، لیکن چیف الیکشن کمشنر نے ان ممبران سے حلف لینے سے انکار کیا، صدر نے اعلیٰ عدلیہ کے 2 ججز کے خلاف ریفرنس دائر کیے، بعد میں ان ریفرنسز کے خلاف فیصلے آئے، ریفرنسوں میں اتنی غلطیاں تھیں کہ ثابت ہوا کہ یہ بدنیتی کے طور پر دائر کیے گئے، وفاقی وزیر قانون نے غیرقانونی طور پر ریفرنس بنائے۔ آرٹیکل 89 کے تقاضے مدنظر نہیں رکھے ، سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ صدر نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف تحقیقات کی اجازت نہیں دی، سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ صدر نے اپنا ذہن آزادانہ استعمال نہیں کیا اس لیے ریفرنس ڈیفیکٹو قرار دیا جاتا ہے۔ صدر نے آزاد عدلیہ پر حملہ کیا، جو ناکام ہوا، عدالتی فیصلوں کے بعد خیال یہ تھا صدر خود استعفیٰ دے دیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، صدر کو ان فیصلوں کی روشنی میں مستعفی ہونا چاہیے۔