تیل پر پابندیاں کے بعد جواد ظریف اور جون بولٹن کے درمیان "ٹی وی" پر جنگ
امریکا کی جانب سے ایران سے تیل کی خریداری پر نئی پابندیوں کے اعلان کے بعد تہران اور واشنگٹن کےدرمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا ہےاور دونوںملکوںکی قیادت ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کررہی ہے۔
گذشتہ روز امریکا کے 'فاکس نیوز' ٹیلی ویژن چینل پر ایرانی وزیرخارجہ محمد جواد ظریف اور امریکی قومی سلامتی کےمشیر جون بولٹن کے درمیان ایرانی تیل پر پابندیوںکی وجہ سے گرما گرم بحث ہوئی۔ دونوں رہ نمائوںنے ایک دوسرے پر سخت تنقید کی اورایک دوسرے کو ان پابندیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
ایرانی وزیرخارجہ نے کہا کہ ایران سے تیل کی خریدرای پر پابندی کے امریکی فیصلے سے خود امریکا کے اتحادی مایوس ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکا نے چین، بھارت، جاپان، جنوبی کوریا، تائیوان، اٹلی اور یونان کو 2 مئی 2019ء سے ایران سے تیل کی خریداری پردی گئی مہلت ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ مہلت امریکا کی طرف سے ایران پر عاید کی جانے والی اقتصادی پابندیوں کے بعد محدود مدت کے لیےدی گئی تھی۔
جواد ظریف نے مزید کہا کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو ایرانی تیل کی خریداری پر پابندی کے فیصلے سے مایوسی کاسامناکرنا پڑے گا۔انہوںنے کہا ہمارے پاس امریکی فیصلے کے خلاف مزاحمت کےکئی راستے موجود ہیں۔ چین، روس، ترکی اور فرانس بھی امریکی فیصلے سے مایوس ہوئے ہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کا کہ امریکا کی طرف سے ایرانی تیل پرپابندیوں کے فیصلے کوعالمی برادری نے مسترد کردیا ہے۔ فاکس نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے امریکی قومی سلامتی کے مشیر جون بولٹن کا کہنا تھاکہ امریکا اپنے یورپی اتحادیوںکے ساتھ مل کر ایران پر عاید کردہ پابندیوں کو موثر بنائے گا۔ انہوںنے ایرانی وزیرخارجہ کا وہ دعویٰ مسترد کردیا کہ امریکی فیصلے سے امریکا اور اس کےاتحادیوں کو مایوسی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی خطہ ایران کے میزائل پروگرام سے سب سے زیادہ خطرے میں ہے۔ اس لیےیورپی ممالک ہمارے ساتھ ایران کے خلاف اقدامات میں ہمارا ساتھ دیں گے۔
قبل ازیں چین اورترکی نے امریکاکی طرف سےایران سے تیل کی خریداری پردیاگیا استثنیٰختم کرنے کی مذمت کرتےہوئے اسے یک طرفہ اور غیر منصفانہ فیصلہ قرار دیا۔