چاروں چیف سیکریٹریز کی تعیناتیوں کے خلاف درخواست قابلِ سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے چاروں صوبائی چیف سیکریٹریز کی تعیناتیوں کے خلاف درخواست کے قابلِ سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صوبائی چیف سیکریٹریز کی تعیناتیوں کے خلاف درخواست کی سماعت کی جس کے دوران چاروں صوبوں کے افسران کی نمائندہ تنظیموں کی جانب سے وکیل عمر گیلانی پیش ہوئے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں ہدایت کی کہ اس عدالت میں درخواست دائر کرنے سے پہلے متعلقہ صوبائی حکومتوں سے رابطہ کریں۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ ایشو تو صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کے درمیان کا ہے، 1947 سے لے کر آج تک یہ پریکٹس چل رہی ہے، کونسی آئینی شِق کی خلاف ورزی ہوتی رہی؟ ۔انہوں نے کہا کہ 1973 کے آئین سے کوئی شِق بتا دیں کہ یہ چیف سیکریٹری کی پوسٹ صوبائی ہے، وفاقی حکومت پر کہاں پر پابندی ہے کہ وہ چیف سیکریٹری کی تعیناتی نہیں کر سکتی؟۔وکیل نے بتایا کہ گورنمنٹ انڈیا ایکٹ 1915 کے تحت وفاقی حکومت نے چیف سیکریٹری لگانا شروع کئے ۔عدالتِ عالیہ نے کہا کہ چیف سیکریٹری جب تعینات ہو جائے تو وہ پھر صوبائی حکومت کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔وکیل نے جواب دیا کہ نوٹیفکیشن میں کہیں نہیں کہا جاتا کہ چیف سیکریٹری صوبائی حکومت کے کنٹرول میں ہو گا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہرسول سرونٹ سیاسی طور پر غیر جانبدار ہوتا ہے، یہ صوبائی معاملہ ہے، عدالت کو اس میں کیوں پڑنا چاہئے ؟۔انہوں نے کہا کہ 184/2کے تحت متعلقہ افسران سپریم کورٹ سے بھی رجوع کر سکتے ہیں، درخواست گزاروں کو پہلے صوبائی حکومتوں کے پاس جانا چاہئے، صوبائی افسران کی ایسوسی ایشن کس قانون کے تحت بنی ہیں؟۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ فرض کریں اگر ہائی کورٹ متاثرہ نہ ہو تو کیا اس کورٹ کا ریڈر ہائی کورٹ کی طرف سے کوئی درخواست دے سکتا ہے؟۔وکیل نے اس موقع پر استدعا کی کہ مجھے کیس واپس لینے دیں یا مزید دستاویزات جمع کرانے کی اجازت دی جائے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت اس حوالے سے مناسب حکم پاس کرے گی۔