برطانوی وزیراعظم اور روسی صدر کے درمیان سرد مہری کا شکار خاموش مصافحہ
جاپان کے شہر اوساکا میں جی - 20 سربراہ اجلاس کے موقع پر روسی صدر ولادی میر پوتین نے برطانوی وزیراعظم تھریزا مے سے ملاقات کی جو 2016 کے بعد دونوں شخصیات کے بیچ پہلی ملاقات ہے۔ اس موقع پر خاموشی کا دور دورہ نظر آیا۔ تھریزا نے پوتین سے ہاتھ ملایا تو برطانوی خاتون وزیراعظم کے چہرے پر سرد مہری چھائی ہوئی تھی بلکہ انہوں نے روسی صدر کی جانب نظر بھی نہیں کی۔ یہ ملاقات دونوں ملکوں کے بیچ پائی جانے والی کشیدگی کی عکاسی کر رہی تھی۔ اس کشیدگی کا سبب 4 مارچ 2018 کو برطانیہ کے شہر سالسبری میں ڈبل ایجنٹ سرگئی اسکریپل اور اس کی بیٹی جولیا پر اعصابی گیس سے کیا جانے والا حملہ تھا۔ برطانیہ نے روس پر نوویچوک اعصابی گیس کے ذریعے زہر دینے کا الزام عائد کیا تھا جب کہ ماسکو نے اس الزام کو مسترد کر دیا۔ جمعے کے روز تھریزا مے اور ولادی میر پوتین کے درمیان ملاقات کے بعد لندن میں "ڈاؤننگ اسٹریٹ" نے برطانوی وزیراعظم کی جانب سے ایک بیان جاری کیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ "روس کی جانب سے غیر ذمے دارانہ کارروائیوں کے روکے جانے سے قبل ہمارے درمیان دو طرفہ تعلقات کا معمول پر آنا ممکن نہیں۔ یہ کارروائیاں عدم استحکام کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور اس کے حلیفوں کے لیے خطرہ بھی ہیں"۔ بیان کے مطابق دیگر ممالک کے امور میں معاندانہ مداخلت، جعل سازی اور سائبر حملے کیے جانے کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔ بیان میں تھریزا مے نے باور کرایا کہ لندن کو دستیاب ٹھوس شواہد یہ ثابت کرتے ہیں کہ ماسکو مارچ 2018 میں سالسبری شہر میں پیش آنے والے زہر دینے کے واقعے میں ملوث ہے۔برطانوی وزیراعظم نے واضح کیا ہے کہ یہ کارروائیاں دہرائی نہیں جانی چاہئیں اور برطانیہ چاہتا ہے کہ اس حملے میں ملوث (روسی عسکری انٹیلی جنس کے) دونوں اہل کاروں کو عدالت میں پیش کیا جائے