سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے ارکان پر حسین نواز کے اعتراضات مسترد کر دیئے
جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بنچ نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ارکان پر اعتراض کی سماعت کی۔ جسٹس عظمت سعید نے جے آئی ٹی کے سربراہ سے استفسار کیا کہ آپ نے کسی کو بلایا تھا جو نہیں آیا جس پر واجد ضیا نے بتایا کہ جے آئی ٹی نوٹس کے باوجود حماد بن جاسم اور کاشف مسعود قاضی نہیں آئے، کاشف مسعود کو سیکیورٹی خدشات ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ تحفظات ہیں تو آپ انتظامات کریں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر حماد بن جاسم پیش نہ ہوئے تو ان کے خط کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی۔ حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ عدالت نے ایک تحقیقاتی ٹیم قائم کی ہے، ہم تحقیقات میں ہر ممکن تعاون کر رہے ہیں،حسین نواز سعودی عرب سے آئے اور انھیں پیش ہونے کا حکم دیا گیا تو وہ فوراً پیش بھی ہوگئے۔ تحقیقات اور گواہوں کے ساتھ رویے میں توازن ہونا چاہیے لیکن طارق شفیع کو تیرہ گھنٹے بٹھایا گیا، انہیں اپنا بیان حلفی واپس لینے کو کہا گیا۔ تفتیش کے دوران ایک لمبا چوڑا شخص طارق شفیع پر چلاتا رہا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ بتائیں بدنیتی کہاں شامل ہے۔۔ مذکورہ شخص کو تحقیقات کے لیے بلایا گیا تھا چائے پارٹی کے لیے نہیں۔۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ بلال رسول کی فیملی کی وابستگی ایک سیاسی جماعت سے ہے۔۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم ایسے سماج میں رہتے ہیں جہاں کسی کے خلاف بات کی جائے تو اسے جانبدار کہا جاتا ہے، کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر جے آئی ٹی کا کوئی رکن تبدیل نہیں ہوگا، شکوک کی بنیاد پر کسی کو ٹیم سے نہیں نکالا جاسکتا، اگر ایسا کیا تو پھر تحقیقات کے لیے آسمان سے فرشتے بلانے پڑیں گے، جے آئی ٹی کے کسی ممبر کو تبدیل نہیں کررہے ، ہم جے آئی ٹی کو ہدایت دیتے ہیں کہ قانون کے مطابق کارروائی جاری رکھے، جے آئی ٹی پیش ہونے والے افراد کی عزت نفس کا خیال رکھے۔۔۔ عدالت نے صدر نیشنل بینک کے پیش نہ ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے ہدایت کی کہ جو پیش نہیں ہوتا اس کے پہلے قابل ضمانت اور پھر ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں۔۔۔