ہوائی جہاز کے بارے انجانے حقائق
دنیا میں ہردوسرے ہوائی جہاز سے سال میں کم سے کم ایک مرتبہ آسمانی بجلی ضرور ٹکراتی ہے لیکن پھر ان جہازوں کے ساتھ ہوتا کیا ہے؟ یا پھر کیا آپ کو معلوم ہے کہ چند مخصوص جہازوں میں خفیہ کمرے بھی بنائے جاتے ہیں؟ جی ہاں ایسا ہوائی جہازوں میں ہوتا ہے لیکن ہم ان جیسی بہت سے باتوں سے انجان ہوتے ہیں۔ آج اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو کچھ ایسے ہی ہماری ویب سے ماخوذ انجان حقائق کے بارے میں بتاتے ہیں جن سے بہت کم لوگ واقف ہیں-
ہوائی جہازوں کو ایک ایسی خاص مہارت کے ساتھ ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ آسمانی بجلی ان پر اثر نہیں کرتی- آسمانی بجلی ہر ہوائی جہاز سے سال میں کم سے کم ایک مرتبہ ضرور ٹکراتی ہے لیکن اسے نقصان نہیں پہنچا پاتی-
جہاز کی کوئی بھی سیٹ محفوظ نہیں ہوتی- فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ جہاز آخری حصے میں موجود درمیانی سیٹوں پر بیٹھے مسافروں کے حادثے کا شکار ہونے کی شرح دیگر سیٹوں بیٹھے مسافروں کے مقابلے میں کم ہے-
کیا آپ جانتے ہیں کہ چند ہوائی جہازوں میں ایک خفیہ کمرہ بھی ہوتا ہے جس سے بہت کم مسافر واقف ہوتے ہیں؟ یہ کمرہ دراصل طویل سفر کی حامل فلائٹس کے دوران ہوائی جہاز کے عملے آرام کرنے لیے بنایا جاتا ہے- یہ عموماً 16 گھنٹے یا اس سے زیادہ کے ہوائی سفر کے دوران استعمال کیا جاتا ہے-
اکثر جہاز میں فراہم کیے جانے والے کھانوں کی شکایت کی جاتی ہے کہ وہ بہت بدذائقہ ہوتے ہیں- لیکن اس میں قصور کھانے کا نہیں بلکہ جہاز کے اندرونی ماحول کا ہوتا ہے جو کھانے کا ذائقہ برقرار نہیں رہنے دیتا- جہاز کے اندر موجود ری سائیکل خشک ہوا جس میں نمی بہت کم ہوتی ہے کھانے کو بدذائقہ بنا دیتی ہے-
جب کبھی رات کے وقت کوئی جہاز ائیرپورٹ پر اترتا ہے عملہ مسافروں کے اترنے سے قبل جہاز کی اندرونی روشنی کم کردیتا٬ آپ جانتے ہیں ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ مسافر جہاز سے باہر نکل کر رات کے اندھیرے میں آسانی سے دیکھ سکیں کیونکہ جب روشنی سے یکدم اندھیرے میں آتے ہیں تو آپ کو اس وقت تک تھوڑا بہت بھی نظر نہیں آتا جب تک کہ آپ کی آنکھیں اندھیرے سے مانوس نہ ہوجائیں-
ہوائی جہاز میں دو انجن نصب ہوتے ہیں لیکن تمام کمرشل طیارے ایک انجن کی مدد سے بھی اڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں- اس طرح ہوائی جہازوں کو اڑایا بھی جارہا ہے اور اس سے ایندھن بچایا جاتا ہے اور جہازوں اس صورتحال کے لیے خاص طور ڈیزائن کیا جاتا ہے- لیکن یہ کوئی خطرناک طریقہ نہیں ہے-
ہوائی جہاز کے ٹائر 38 ٹن تک کا وزن برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہوائی جہاز کو متوازن انداز میں کھڑا بھی رکھتے ہیں- جب جہاز زمین پر اترتا ہے تو اس کی رفتار 170 میل فی گھنٹہ ہوتی ہے اور یہ ٹائر اس تیز رفتاری کے ساتھ ہی زمین سے ٹکراتے ہیں لیکن پھر بھی انہیں کچھ نہیں ہوتا-
اگر آپ جہاز کی کھڑکیوں کا بغور جائزہ لیں تو آپ کو ان میں ایک چھوٹا سا سوراخ دکھائی دے گا- دراصل یہ سوراخ جہاز کے اندر کے ہوا کے دباؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے-
جب ہوائی سفر کا آغاز ہوتا ہے تو ائیرہوسٹس کی جانب سے آکسیجن ماسک کے استعمال کے حوالے سے ضرور معلومات فراہم کی جاتی ہیں- لیکن عملہ یہ کبھی نہیں بتاتا کہ یہ آکسیجن ماسک صرف 15 منٹ تک قابلِ استعمال ہوتے ہیں اور اس کے بعد کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں-