سپریم کورٹ میں اورنج لائن منصوبہ سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
سپریم کورٹ میں اورنج لائن منصوبے سے معتلق کیس میں چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا کہ منصوبہ وقت پر مکمل نہ ہونے کی کیا وجہ ہے۔ اس منصوبے کے حوالے سے عدالت کی تشکیل کردہ کمیٹی سے تعاون نہیں کیا گیا۔ غیر معیاری کام کیا گیا۔ سربراہ پروجیکٹ سبطین علی نے آگاہ کیا کہ منصوبے کے سول ورک کی لاگت پانچ سو اکتیس ملین ڈالر ہے۔ اورنج لائن منصوبے کے سول ورک کی مد میں چارسو ننانوے ملین ڈالرز کی ادائیگیاں ہو چکی ہیں ۔ منصوبہ ستائیس ماہ میں مکمل ہونا تھا۔ کام مکمل ہونے کے بعد پہلی ٹرین تیس جولائی دوہزار انیس کو چل جائے گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی تنخواہ لے رہے ہیں کام بھی اس حساب سے کریں۔ پلاننگ ڈویژن کے تحفظات کو دور کرنے میں ایک ماہ کیوں لگ گیا۔ ہر محکمہ اپنا کام دوسرے پر ڈال رہا ہے۔ لوگوں کو منصوبے میں تاخیر کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ پراجیکٹ انچارج اورنج لائن نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پانچ ستمبر کو عہدے سے مستعفی ہورہا ہوں۔ میری اور میرے بچوں کی تمام تفصیلات نیب کے پاس ہیں۔ اس عمر میں ملزم نہیں بننا چاہتا
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عوامی مفاد میُں کیس سن رہے ہیں۔ مستعفی ہونا نہ ہونا آپکی صوابدید ہے۔
چاہتا ہوں اورنج لائن منصوبے کے کام میں ایک دن رکاوٹ نہ آئے۔ سبطین صاحب آپ ڈلیور کرسکتے ہیں چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ تمام متعلقہ حکام میٹنگ کرکے معاملات سے آگاہ کریں۔