پانامالیکس کیس میں شریف خاندان کی وراثتی جائیداد کی تقسیم اور اسحاق ڈار کی معافی کا ریکارڈ جمع کرادیا گیا

پاناما کیس کی سماعت میں نیب نے اسحاق ڈار کی معافی سے متعلق ریکارڈ عدالت میں جمع کروا دیا۔ شاہد حامد کا کہنا تھا کہ وعدہ معاف گواہ کا بیان حلفی اس کیخلاف استعمال نہیں ہوسکتا۔ عدالت نے ریمار کس دیئے کہ وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد اسحاق ڈار کا بیان ان کے نہیں وزیراعظم کیخلاف استعمال ہوسکتا ہے۔ شاہد حامد کا کہنا تھا کہ صرف الزام کی بنیاد پر نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسحاق ڈار کو کہا گیا بیان نہ دیا تو اٹک قلعے سے نہیں جانیں دیں گے۔ مشرف دور میں رانا ثنا اللہ کے بال اور بھنویں منڈوا دی گئیں۔ پراسیکوٹر جنرل نیب وقاص قدیر نے دلائل دیئے کہ نیب کے اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس میں اپیل دائر نہیں کی جائے گی۔ عدالت عظمی نے نیب کے اجلاس کی کارروائی کے کمنٹس طلب کرلئے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ نیب، ایس ای سی پی اور سٹیٹ بینک نے اپیل کیوں دائر نہیں کی۔ کیا نیب ہائیکورٹ کے کسی فیصلے کیخلاف اپیل دائر نہیں کرتی۔ نیب پراسیکیوٹر نے آگاہ کیا کہ ہائیکورٹ کے ججز کی دانش کو مدنظر رکھتے ہوئے اپیل دائر نہیں کی۔ سماعت میں وزیراعظم کے وکیل نے شریف خاندان کی وراثتی جائیداد کی تقسیم کا ریکارڈ جمع کروادیا۔ حسن اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل کا آغاز کیا۔ انکا کہنا تھا کہ حسین نواز لندن فلیٹس کے بینیفیشل اونر ہیں۔ نوازشریف کا لندن فلیٹس سے تعلق نہیں۔ جرم ثابت ہونے تک ملزم معصوم ہوتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آف شور کمپنیوں کا ریکارڈ پیش کیا جائے۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ شواہد فراہم کرنا الزام لگانیوالے کا کام ہے۔ یہاں میاں شریف مرحوم کا ٹرائل ہورہا ہے۔ چالیس سالہ ریکارڈ سنبھالنے کی کیا ضرورت تھی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا طارق شفیع کے بیان حلفی اور فیکٹری فروخت کے معاہدے پر دستخط میں واضح فرق ہے۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ دستخط میں فرق آہی جاتا ہے۔ نقد رقم پر دنیا بھر میں کاروبار ہوتا ہے غلط مطلب نہ لیا جائے۔ کیس کی مزید سماعت کل ہوگی۔