اب ملک میں قانون کی حکمرانی ہوگی ۔ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ا ب ملک میں قانون کی حکمرانی ہوگی ۔ جس چیز کو ہاتھ ڈالا جاتا ہے وہی غلط ہے۔ سب چاہتے ہیں ملک میں قانون کی حکمرانی ہو،۔ سی ڈی اے کے کاموں کی بطور جج بھی سمجھ نہیں آرہی ۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے اسلام اباد میں سوئمنگ پول پلاٹ پر پلازے کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت کی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت نے گزشتہ سماعت پر تین افراد کو طلب کیا تھا عدالتی کمیٹی نے بھی اپنی تجاویز مرتب کر لی ہیں۔ اس دوران پلازہ مالک کے وکیل نے عدالت سے کہاکہ میری گزارش تھی دوکانداروں کو 2016 کے طے کردہ ریٹ پر ہی دوکانیں دی جائیں ۔کرایہ داروں کے وکیل نے کہاکہ دوکاندار سو فیصد اضافے کرایوں میں اضافہ کے لیے تیار ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ دوکانداروں کا کوئی حق نہیں عدالت انکو پلازہ میں واپس لارہی ہے۔ دوسری صورت میں اپ پگڑیاں واپس لینے کے لیے ٹرائل کورٹ میں کیس دائر کریں۔کیس میں کرایہ داروں کانخرہ نہیں دیکھوں گا۔کرایہ داروں کے وکیل نے کہاکہ پانچ سال کا ایڈوانس دینا مشکل ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ایڈوانس ایک سال کا کرایہ داروں سے لے لیں۔سالانہ کرایہ میں اضافہ ہو گا۔دوکانوں کا کرایہ240 روپے فی مربع فٹ ہو گا۔کیس میں دوسرا مسئلہ سیکنڈ فلور کی کمرشلائزیشن کا ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ سی ڈی اے کے جتنے مقدمات پر ہاتھ ڈالتے ہیں کامران لاشاری کا نام نکلتاہے۔ہر کیس میں لاقانونیت کی انتہا کر دی گئی میں تو سوچ رہا ہوں یہ مقدمات نیب کو بجھوا دوں۔۔چیف جسٹس نے مزید کہاکہ ایسا تو نہیں تھا کہ اس وقت مطلق العنان تھے۔ایسی جائیداد بھی کمرشلائز کر دی گئی جو نہیں ہو سکتی تھی۔اس دوران سی ڈی اے کے افسر غلام سرور سندھ نے کہاکہ 1999 میں سی ڈی اے بورڈ نے فیصلہ کیا کہ ایک منزل بنانے کی اجازت دی جائے۔چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ سارے کے سارے بدیانت ہو۔اس پلاٹ کی کمرشلائزیشن کس نے کی۔غلام سرور سندھونے کہاکہ اس پلاٹ کی کمرشلائزیشن آج تک ہوئی ہی نہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ کمرشلائزیشن ہوئی نہیں تو پلازہ کیسے بن گیایہ تو بلکل بدنیتی پر مبنی ہے۔آپ نے کیا ایکشن لیا۔سابق چیئرمین کامران لاشاری نے پیش ہوکر بتایا کہ یہ فائلیں کبھی میرے تک آئی ہی نہیں ۔چیف جسٹس نے کہاکہ نیب دیکھے کیس کا ریفرنس بنتا ہے تو ریفرنس فائل کریں۔ملک سے قانون کی حکمرانی تو ختم نہیں کروانی۔ بیس دنوں میں نیب اپنی رپورٹ دے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ آوے کا اوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔سی ڈی اے کہتا ہے پہلے غیر قانونی تعمیر کرلیں پھر ریگولر کروا لیں۔ سی ڈی اے بورڈ کے اختیارات بھی قانون کے مطابق ہیں۔ یہ تو خدا بنے بیٹھے ہیں کو مرضی چاہیے کریں۔ اگر بورڈ نے منصوبے منظور کیے تو پھر سارا بورڈ زمہ دار ہو گا۔ اب ملک میں رول آف لا ہو گا۔ جس چیز کو ہاتھ ڈالا جاتا ہے وہی غلط ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سی ڈی اے کے کاموں کی بطور جج بھی سمجھ نہیں آرہی ۔ سب چاہتے ہیں ملک میں قانون کی حکمرانی ہو۔ کامران لاشاری صاحب آپ بتائیں سیکنڈ فلور کا کیا کریں۔ کامران لاشاری نے جواب دیا کہ اس فلور کو گرایا بھی جاسکتا ہے اور ریگولر بھی کیا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کامران لاشاری صاحب ہم اپکی عزت کرتے ہیں۔کامران لاشاری نے کہاکہ جب بھی ایسا ایشو آئے عدالت سے درخواست سے وضاحت کے لیے بلا لے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 9کروڑ 13لاکھ آج کی ریگولیشن فیس بنتی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ آپ لوگوں نے سپریم کورٹ کو نیلام گھر بنا رکھا ہے۔عدالت نے حکم نامہ میں قراردیا کہ سیکنڈ فلور کاکرایہ 240 فی مربع فٹ ہوگا اور دکانداروں نے ایک سال کا کرایہ ایڈوانس دینا ہوگا۔تین سال بعد 25 فیصد کرایہ میں اضافہ ہوگا۔۔اس دوران کرایہ داروں کی جانب سے ریٹس پر اعتراض کیا گیا تو عدالت نے کیس کی مزید سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کردیا چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیس نیب کو نہیں بھیج رہے، نیب کا بھی کوئی بھروسہ نہیں۔