مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاون اور جھڑپوں کے درمیان یوروپی یونین وفد کا دورے کا دوسر ا روز
مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے یوروپی یونین کا 23 رکنی پارلیمانی وفد سخت ترین سیکورٹی میں دو روزہ دورے پر ہے۔ اس موقع پر وادی میں مکمل ہڑتال رہی اور متعدد مقامات پر عوام اور قابض افواج کے مابین جھڑپیں ہوئیں سیکورٹی گاڑیوں کا ایک قافلہ ان ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ تھا۔ یہ ارکان ایرپورٹ سے ایک بلٹ پروف جیپ کے ذریعہ اپنے ہوٹل پ پہنچے ۔ یہ ٹیم اپنے دو روزہ دورہ پر یہاں پہنچی تھی جہاں سینئر سکیوریٹی افسران نے انھیں وادی اور ریاست کے دیگر علاقوں کی تازہ ترین صورتحال سے بریف کیا۔ وفد کوعام لوگوں اور سیاسی جماعتوںسے ملاقات کی اجاز ت نہیں دی گئی ۔ عہدیداروں نے کہاکہ وادی کے مختلف حصوں اور سرینگر میں مکمل بند رہا۔ سکیوریٹی اہلکاروں اور عوام کے درمیان کئی مقامات پر تصادم کے واقعات پیش آئے۔ سرینگر کے وسطی علاقے اور 90 فٹ چوڑی سڑک کے علاوہ اس شہر کے دیگر کم سے کم پانچ مقامات پر عوام نے رکاوٹیں کھڑا کرتے ہوئے راستوں کو بند کردیا تھا۔ سڑکوں کے کنارے چھوٹے کاروبار کرنے والے افراد آج اپنی دوکانات نہیں لگائے تھے۔ تاہم 10 ویں جماعت کے بورڈ امتحان مقررہ پروگرام کے مطابق منعقد ہوئے۔ اس دوران طلبہ کے فکرمند والدین اور سرپرست امتحانی مراکز کے باہر اپنے بچوں کے انتظار میں کھڑے دیکھے گئے۔ قابلہ بلٹ پروف گاڑیوں میں سنسان سڑکوں سے گذرتا آگے بڑھاجس کے دونوں کنارے مصلح دستے مستعدی کے ساتھ تعینات تھے۔وہ ڈل جھیل میں شکارا کی سواری کرنے کے لئے پہنچے جہاں پر ان کے سوائے مکمل ویرانی چھائی ہوئی تھی۔مذکورہ غیر ملکی اراکین پارلیمنٹ کا دورہ اس وقت پیش آیا جب یوکے کے سینئر سیاست داں لیبرل ڈیموکرٹیک ایم ای پی کریس ڈیویس نے کہاکہ تھا کہ انہیں کشمیر کے دورے سے روک دیا گیا ہے کیونکہ وہ چاہتے تھے کے پولیس کی نگرانی کے بغیر وہ مقامی لوگوں سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ڈیوس نے کہاکہ انہیں ہندوستانی عہدیداروں کی جانب سے مدعو کیاگیاتھا مگر ان کے زوردینے کے بعد مختصر سے وضاحت کے بعد اس دعوت نامہ سے دستبرداری اختیار کرلی گئی اورکیونکہ میں نے کہاتھا کہ بنا سکیورٹی صحافیوں کے ہمراہ مقامی لوگوں سے ملاقات او ربات کرنا چاہتے ہیں۔پنے بیان میں ڈیوس نے کہاکہ میں پی آر اسٹنٹ کے لئے ہر گز تیار نہیں ہے جو مودی حکومت کا ہے تاکہ حالات معمول پر ہیں اس طرح بتایا جائے۔ یہ بلکل صاف ہے کہ جمہوری اقدار کشمیر میں پامال ہورہے ہیں اور دنیا کو اس کے متعلق نوٹس لینا شروع کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے لکھا کہوہ کیا جس کو ہندوستانی حکومت چھپانے کی کوشش کررہی ہے؟کیو ں صحافیوں اورسیاسی قائدین کو مقامی لوگوں سے ملاقات کا مواقع نہیں دیاجارہا ہے؟۔انہو ں نے کہاکہانگلینڈ میں نارتھ ویسٹ کے ہزاروں لوگوں کی میں نمائندگی کرتاہوں جس کے اہل وعیال کشمیر میں ہے۔وہ پوری آزادی کے ساتھ اپنے رشتہ داروں سے بات نہیں کرپارہے ہیں۔ وہ ان کی آواز سننا چاہارہے ہیں۔انہوں نے آگے کہاکہ مجھے ڈر ہے کہ اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ حکومتیں جنگی قانونی نفاذ کرتے ہوئے اور آزادی کو سلب کرنے لوگوں کا دل او ردماغ نہیں جیت سکتی ہیں۔پرتشدد کا خطرہ بھی واضح ہے۔ اس دورے میں زیادہ تر دائیں بازو کے پارلیمنٹرین برائے ای یو ہیں جس میں سے کئی نے مخالف مسلم مخالف ایمگریشن بیان دے کر تنازعہ کھڑا کیاہے۔دہلی میں اپوزیشن پارٹیوں اور دائیں بازو کے زیادہ تر قائدین حکومت سے سوال کررہے ہیں کہ ہندوستانی اراکین پارلیمنٹ پر امتناع اور غیر ملکی اراکین پارلیمنٹ کو کشمیر دورے کی اجازت دینے کی وجہہ کیاہے۔جموں و کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دستوری دفعہ 370 کی مرکز کی طرف سے 5 اگسٹ کو تنسیخ اور اس ریاست کو دو مرکزی زیرانتظام علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کئے جانے کے بعد یوروپی یونین کے 23 ارکان پارلیمنٹ اس ریاست کے پہلے اعلی سطحی دورہ کنندگان ہیں۔ یوروپی یونین کا یہ پارلیمانی وفد دراصل 27 ارکان پر مشتمل ہے جس میں اکثر انتہائی دائیں بازو اور دائیں بازو جماعتوں کے ارکان ہیں۔ لیکن چار ارکان کشمیر کا دورہ نہیں کرسکے اور اپنے متعلقہ ملکوں کو واپس چلے گئے۔ عہدیداروں نے مزید تفصیلات کا انکشاف کئے بغیر ان چار ارکان کی اپنے ملک واپسی کی اطلاع دی،مقبوضہ کشمیر کے سابق کانگریس چیف منسٹر غلام نبی آزاد نے یورپی یونین کے وفد کے دورہ کومنصوبہ بند دورہ قراردیا ہے۔کانگریس لیڈر راہول گاندھی سی پی ائی ایم جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری نے کہاکہ ہندوستانی اراکین پارلیمنٹ کے لئے دروازے بند اور غیر ملکی قائدین کے لئے دروازے کھلے۔سری نگر میں مقامی لوگ اب بھی دروازوں کے پیچھے بند ہیں۔اوران کے سیاسی قائدین عبداللہ او رمفتی بھی زیر حراست ہیں۔ جھڑپوں کی خبریں اور ریاست بھر میں سخت سکیورٹی نافذ ہے