وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ ماضی میں قرضے لینے پر توجہ دی گئی، برآمدات کم ہوئیں اور درآمدات میں اضافہ ہوا۔ یہ خلاءحکومت کو پُر کرنا پڑا، ہم وہ وجوہات ختم کر رہے ہیں جن سے قرضے لینے کی ضرورت پڑے، پارلیمان کے مشورہ سے فیصلے کریں گے۔ جمعہ کو ایوان بالا میں وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر چوہدری تنویر خان کے سوال کے جواب میں وزیر خزانہ اسد عمر نے بتایا کہ ماضی میں ہم نے تاجر، صنعت کار، کسان کو سپورٹ کرنے کی بجائے قرضے لینے پر توجہ دی، ہم نے دیکھا کہ برآمدات کم ہوئیں، درآمدات بڑھیں، یہ خلا حکومت کو مکمل کرنا پڑا، ہم وہ وجوہات ختم کر رہے ہیں جن سے قرضوں کی ضرورت پڑی، صورتحال کی بہتری میں وقت لگے گا۔ ایک دو ہفتوں میں پلان بنا کر پارلیمان کے سامنے رکھیں گے اور مشورہ لیں گے کہ اس صورتحال کو کیسے بہتر کیا جا سکتا ہے۔ بجٹ میں 9 بلین ڈالر کے غیر ملکی قرضے کی بات کی گئی ہے۔ ہفتہ دو ہفتے میں ہم نظرثانی حکمت عملی سامنے لے آئیں گے، جو غیر ملکی قرضہ ہم لیں گے وہ بھی پارلیمان سے مشورہ کے بعد لیں گے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے یا نہ جانے کا فیصلہ بھی بحث کے بعد کریں گے۔ انہوں نے ضمنی سوال کے جواب میں بتایا کہ غیر ملکی قرضوں کی بہت بڑی تعداد بیلنس آف پے منٹس کے لئے لی گئی ہے۔ سوال کے تحریری جواب میں بتایا گیا ہے کہ 2008ءسے 2018ءکے دوران حکومت کی جانب سے حاصل کردہ غیر ملکی قرضوں کی مالیت 69.174 ارب امریکی ڈالر ہے۔ مذکورہ عرصے میں حکومت کی جانب سے واپس ادا کئے گئے قرضہ جات کی مالیت 47.08 ارب امریکی ڈالر ہے۔
گزشتہ سال بڑی تعداد میں نوٹ چھاپے گئے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ وزیر خزانہ اسد عمر
وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ گزشتہ سال بڑی تعداد میں نوٹ چھاپے گئے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی، وزیراعظم نے گائیڈ لائنز دی ہیں جن کی روشنی میں فیصلے کئے جائیں گے، پارلیمان سے بھی مشاورت کی جائے گی۔ جمعہ کو ایوان بالا میں وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر مشتاق احمد خان کے سوال کے جواب میں وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ مالی ذمہ داری و قرضے کی حدود ایکٹ 2005 (ایف آر ڈی ایل) کے تحت حکومت کو 60 فیصد جی ڈی پی سے زیادہ ادھار لینے کا پابند نہیں کرتا، حکومت 60 فیصد کی حد سے ہٹ سکتی ہے تاہم ایسے معاملے میں قرض میں کمی کا راستہ تیار اور فراہم کیا جاتا ہے۔ مارچ 2018ءکے آخر میں جی ڈی پی شرح پر کل حکومتی قرضہ 64.1 فیصد پر کھڑا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم ایسے وقت سے گذر رہے ہیں جہاں فوری فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، 30 ستمبر تک ہمیں فیصلے کرنے ہوں گے۔ ہم وزارت خزانہ میں بیٹھ کر کام کر رہے ہیں۔ سٹیٹ بینک اور خزانہ کی وزارت کو ساتھ بٹھایا اور مختلف آپشنز تیار کئے ہیں۔ وزیراعظم سے بھی رات ملاقات کی ہے، انہوں نے گائیڈ لائنز دی ہیں، کابینہ میں بحث کے بعد ستمبر کے درمیانی عرصہ میں ہم پارلیمان میں اس معاملے پر بحث کریں گے۔ 2 ٹریلین روپے کی سپلیمنٹری رقوم تھیں اس طرح بجٹ کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ وفاقی حکومت نے 2 ہزار 400 ارب کا قرضہ سٹیٹ بینک سے لیا جس میں سے 1200 ارب صرف گزشتہ سال میں لیا گیا، اتنی بڑی تعداد میں نوٹ چھاپے گئے جس کی مثال نہیں ملتی۔