آرٹیکل باسٹھ ون ایف کےتحت تاحیات نااہلی کا معاملہ، ایمانداری آرٹیکل 62 کا بنیادی جزو ہے, بےایمانی کا مطلب چیٹنگ اور فراڈ ہے, چیف جسٹس ثاقب نثار
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت جہانگیر ترین کے وکیل اور عدالتی معاون منیر اے ملک نے تاحیات نااہلی کی مخالفت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے مقدمے میں مدت کا تعین کرنا چاہتے ہیں، عدالتی معاون منیر اے ملک نے دلائل میں کہا آرٹیکل 62 اور63 کو ملا کر پڑھنے کی ضرورت ہے، 18ویں ترمیم میں پارلیمنٹ کی تاحیات نااہلی کی بھول بھلیوں سے نکلنے کی نیت واضح ہے۔ جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن نے قرار دیا کہ جب تک نااہلی کا ڈیکلریشن موجود ہے اس کے اثرات رہیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا ایک کیس میں فیصلہ آ چکا ہے کہ ڈیکلریشن کو ختم کرنے کیلئے ڈیکلریشن نہیں دیا جا سکتا۔ فاضل بنچ نےاستفسار کیا کہ اگر عدالت کسی کو ذہنی معذور یا غداری کا مرتکب قرار دے تو کیا نااہلی مستقل نہیں ہوگی۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ پارلیمینٹیرنز کیلیے ایمانداری بہت ضروری ہے۔ ہم قوم کے لیڈر،ممکنہ وزیراعظم اور وزیر کی بات کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ایمانداری آرٹیکل 62 کا بنیادی جزو ہے۔ بےایمانی کا مطلب چیٹنگ اور فراڈ ہے، ایسا کرنے والوں پر تاحیات پابندی ہونی چاہیے۔ کیس کی سماعت جمعرات کو بھی جاری رہے گی۔ نوازشریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے تیاری کیلئے تین دن کی مہلت مانگ لی۔جس پر سپریم کورٹ نے انہیں آئندہ ہفتے تک مہلت دے دی