سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا عمل ممکن ہے اور یہ ہمارے مفاد میں ہے۔اسرائیلی وزیرخارجہ
اسرائیلی وزیرخارجہ یائرلاپیڈ نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے تک پہنچنا ایک طویل اورمحتاط عمل ہوگا تاہم اسرائیل اس امکان میں یقین رکھتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق وزیرخارجہ نے کہا کہ ہمیں یقین ہے،سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا عمل ممکن ہے۔ یہ ہمارے مفاد میں ہے۔ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ابراہیم معاہدے کے بعد یہ اگلا قدم ہے اور وہ یہ کہ ایک طویل اورمحتاط عمل کے بارے میں بات کی جائے گی۔ لاپیڈ نے مزید کہا کہ اگر کسی معاہدے پر دست خط کردیے جاتے ہیں تویہ حیرت انگیزاعلان نہیں ہوگا جیسا کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ ہونے والے سابقہ معاہدوں کے وقت ہوا تھا۔ لاپیڈ نے 2020 میں امریکا میں دستخط شدہ ابراہیم معاہدے کے حوالے سے کہا کہ یہ اس طرح نہیں ہوگا جیساکہ پچھلی بارہوا تھا کہ ہم ایک صبح اچانک نہیں اٹھیں گے اور یہ حیرت انگیز امر ہوجائے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل امریکا اور خلیجی ممالک سے مل کر سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے مقصد سےکام کر رہا ہے۔ اس وقت سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔مملکت کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے مارچ میں کہا تھا کہ سعودی عرب اسرائیل کو ایک ممکنہ اتحادیکے طور پر دیکھتا ہے۔ تاہم انھوں نے واضح کیا کہ اس سے پہلے متعدد مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے امریکی میگزین دی اٹلانٹک کوانٹرویودیتے ہوئے کہا تھا:ہمیں امید ہے کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان دیرینہ تنازع حل ہو جائے گا۔ہم اسرائیل کو دشمن کے طور پر نہیں دیکھتے، ہم انھیں ایک ممکنہ اتحادی کے طور پر دیکھتے ہیں، بہت سے مفادات کے حصول کے لیے ہم مل کرکوشاں ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس تک پہنچنے سے پہلے کچھ مسائل حل کرنا ہوں گے۔