شرکامولانا مارچ سے ممکنہ تصادم کی صورت میں بھی عمران خان ہی وزیراعظم ہوں گے:وفاقی وزیرداخلہ

وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے واضح کیا ہے کہ شرکاء مولانا مارچ سے ممکنہ تصادم کی صورت میں بھی عمران خان ہی ملک کے وزیراعظم ہوں گے۔ وزیراعظم کے استعفے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نوازشریف کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں ہے۔ گوجر خان میں پڑاؤ کے دوران مارچ میں 20 سے 25 ہزار افراد تھے۔ حکومت کوئی راستہ بند کرے گی۔ اسلام آباد کھلا ہے۔ حکومت مولانا مارچ سے خوف زدہ نہیں ہے کیونکہ جو ڈر گیا وہ مر گیا جبکہ معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ مولانا مارچ اور عمران خان کے دھرنے کا موازنہ نہ کیا جائے۔ ملا فضل الرحمان کا مارچ کرپشن کے تحفظ کے لئے ہے جبکہ عمران خان کی قیادت میں کرپشن کے خلاف دھرنا دیا گیا تھا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو پی آئی ڈی کے میڈیا سینٹر میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ حکومت کی طرف سے مظاہرین سے سات نکات پر مشتمل معاہدے اور 37 نکات پر مشتمل ضابطہ اخلاق باقاعدہ طور پر جاری کر دیا گیا ہے۔ سکیورٹی کے لئے سہ رخی حکمت عملی مرتب کی گئی ہے۔ پہلی لائن پولیس، سیکنڈ رینجرز اور آخری آپشن کے طور پر فوج کی طلبی ہو گا۔وزیرداخلہ نے کہا کہ انٹرنیٹ بند نہیں کیا گیا اگر ایسا ہے تو اس کا نوٹس لیا جائے گا ہماری طرف سے ایسا کوئی اقدام نہیں کیا گیا، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بتایا کہ اسلام آباد میں 7 ہزار سے زائد غیرملکی سفارت کار و عملہ مقیم ہے۔ 80 ممالک کے سفارتخانے اقوام متحدہ کی 31 مختلف تنظیمیں چالیس ممالک کے قونصلیٹ اور 142 آنریری قونصل خانے ہیں۔ دنیا بھر میں یہ سات ہزار سفارتکار پاکستان کا امیج ابھارنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ حکومت ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین، قانون اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ و عدالتی فیصلے کے روشنی میں احتجاج کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں مقیم سفارتکار پاکستان کے امیج کی عکاسی کرتے ہیں۔ 2008ء میں اقوام متحدہ نے اسلام آباد کو نان فیملی شہر قرار دیدیا تھا۔ ایک سال کی محنت کے بعد موجودہ حکومت کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ اسلام آباد کو دوبارہ فیملی شہر قرار دیدیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی احتجاج حق ہے۔ ہم بھی سیاسی کھلاڑی ہیں سیاسی میدان میں پنجہ آزمائی ہو سکتی ہے مگر ہمیں پاکستان کے بہترین امیج کی عکاسی کرنے والے سفارتکاروں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ بے یقینی، ابہام، قیاس اور مبالغہ آرائی کے اثرات ان سفارتکاروں پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ باہر کے ملکوں میں بھی اس کی گونج سنائی دیتی ہے اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے امیج کے حوالے سے کانٹے بکھیرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ ملا فضل الرحمان مہم جوئی اور احتجاج پر مصر ہیں۔ حکومت نے اس کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے اجازت دی معاہدے کی پاسداری کی جائے اسی کے ذریعے استحکام کو برقرار رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کا بھی پاکستان اور ریاست سے رشتہ ہے ان کے بیانیے میں کچھ نہیں ہے۔ وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے کہا کہ پاکستان میں سکندر مرزا کے دور سے مارچ اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ مولانا فضل الرحمان نے 19 جولائی کو مارچ کا اعلان کیا۔ چھ نکات پر مشتمل مطالبات جاری کئے جو کم ہوتے گئے انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی ماحول کو کشیدہ نہیں کرنا چاہتے۔ وزیراعظم کا فیصلہ ہے کہ مولانا کو آنے دیں لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اسلام آباد کے ہائیکورٹ کے فیصلے کی پاسداری ضروری ہے۔ جب وزیراعظم نے یہ بیان دیا تو وہ لوگ جو انتشار پھیلنے کے متمنی تھے تو ان کے منہ بند ہو گئے اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے ساتھ تین بار مذاکرات ہو چکے ہیں۔ انہیں خطرات سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔ ڈی چوک پر اصرار کیا گیا تو واضح کر دیا کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ رہبر کمیٹی نے مارچ کے مقام کے علاوہ کسی اور معاملے پر بات نہیں کی۔ نہ اپنے مطالبات سے آگاہ کیا صرف پشاور موڑ چوک پر جلسے کی خواہش ظاہر کی۔ 37 نکاتی ضابطہ اخلاق جاری کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جلسہ کے لئے بجلی، پانی کے کنکشنز دیئے گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان مہنگے ترین کنٹینر میں سفر کر رہے ہیں ہم نہیں چاہتے کہ کوئی جھٹکا لگنے سے اس کی کمانی ٹوٹ جائے اس لئے اسلام آباد میں اس کے لئے الگ سے روٹ کا تعین کیا گیا ہے۔ باتھ رومز کے لئے بھی جگہ فراہم کی گئی ہے۔ حکومت کی طرف سے مولانا مارچ کے شرکاء کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اردگرد ساٹھ ہزار ایکڑ کے مزید بھی گراؤنڈ موجود ہیں۔ حلفیہ طور پر کہتا ہوں کہ قانون کو ہاتھ میں نہ لیا گیا تو مولانا مارچ کو ڈسٹرب نہیں کریں گے۔ عوام کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جلسہ کی بھی حفاظت کریں گے داخلی سکیورٹی کی ذمہ داری جے یو آئی کی اپنی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے مظاہرین کی طرف سے دیواریں پھلانگ کر آنے کو روکنے کا تجربہ ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو۔ 1977ء سے 2016ء تک دھرنے اور مارچ ہوئے۔ ہم چاہتے ہیں یہ مارچ خیر و عافیت سے مکمل ہو جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آزادی مارچ تو 27 اکتوبر کو ختم ہو چکا ہے۔ اب تو مولانا مارچ ہے۔ گرفتاریاں نہیں ہوں گی۔ مولانا سے میرے اچھے تعلقات رہے ہیں۔ برملا کہہ رہا ہوں کہ وزیراعظم عمران خان کے استعفے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مولانا سے پوچھیں جب حکومت کی طرف سے دوٹوک الفاظ میں واضح کر دیا گیا ہے تو وہ کیوں آ رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کتنے دن بیٹھیں گے اگر مجھے معلوم ہوا تو میڈیا کو آگاہ کر دوں گا۔ فی الحال ہم بھی لاعلم ہیں۔ اچھا ماحول فراہم کر رہے ہیں۔ حکومتی گھبراہٹ اور پریشانی سے متعلق سوال پر وزیر داخلہ ناراض ہو کئے اور کہا کہ حکومت گھبراہٹ کا شکار نہیں ہے کیا میں ڈانس کر کے دکھاؤں۔ کمزور سے کمزور حکومت بھی اپنی رٹ کو برقرار رکھتی ہے کیونکہ جو ڈر گیا وہ مر گیا۔ حکومت گھبرائی ہوئی نہیں ہے ایک سوال کے جواب میں نوازشریف کا نام ای سی ایل میں شامل نہیں ہے۔ وزیراعظم نے واضح ہدایات کی ہیں کہ کسی بھی شخص کی صحت پر کمنٹس اور سیاسی نہ کریں انہیں آٹھ ہفتے مل گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ لاہور میں مولانا مارچ سے پانچ نان کسٹم گاڑیاں اور چار سلنڈرز پکڑے گئے ہیں یہ گاڑیاں افغانستان سے سمگل کی گئی تھیں۔ لاہور سے مولانا مارچ کے بیشتر لوگ رائے ونڈ چلے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ آخری اطلاعات تک گوجر خان میں پڑاؤ کرنے والوں کی تعداد 20 سے 25 ہزار تھی جبکہ خیبرپختونخوا کا مارچ الگ ہے۔ 37 نکاتی ضابطہ اخلاق کے تحت پہلی لائن میں پولیس دوسری لائن میں رینجرز آخری آپشن فوج کا استعمال ہو گا۔ ہم چاہتے ہیں کہ پہلی لائن کا بھی استعمال نہ ہو۔ لاٹھی اور اسلحہ لانے کی اجازت نہیں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات نے بتایا کہ وزیراعظم نے ریل حادثے کی تحقیقات کا حکم دیدیا ہے غفلت کے ذمہ داران کے تعین کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ مستقبل میں اس قسم کے ناخوشگوار واقعات سے بچا جا سکے۔ حکومت قیمتی جانوں کے ضیاع پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہے۔