چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی تین رکنی بینچ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر ٹیکسوں کے معاملے کی سپریم کورٹ میں سماعت کر رہا ہے۔
سماعت کے آغاز پر پی ایس او کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایل این جی اور پیڑول کی قیمتیں زیادہ کنٹرول نہیں کی جا سکتیں تاہم کچھ اقدامات کئے جا سکتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ اقدامات حکومت کو ہی کرنے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا پی ایس او کے ایم ڈی 37 لاکھ تنخواہ کس مد میں لے رہے ہیں جس پر وکیل نے بتایا ایم ڈی کی تقرری وفاقی حکومت کرتی ہے، اس پر پی ایس او بورڈ کا کوئی کنڑول نہیں۔وکیل پی ایس او نے کہا کہ ایم ڈی عمران الحق کا باضابطہ طریقے سے تقرر کیا گیا اور تنخواہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق دی گئی جس پر چیف جسٹس نے کہا حکومت بتائے کس بنیاد ہر ایم ڈی پی ایس او کو 37 لاکھ تنخواہ دی گئی، کوئی اور بندہ پاکستان میں اتنی تنخواہ نہیں لے رہا ہوگا۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ اینگرو اور ایل این جی سیکٹر میں کام کرتے رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا ایم ڈی پی ایس او کی تقرری کا معاملہ نیب کو بھجوا دیتے ہیں اور نیب ان کی تنخواہ اور مراعات کی تحقیقات کرے۔
اٹارنی جنرل نے ایل این جی درآمد کے معاملے پر ان کیمرہ بریفنگ کی استدعا کی اور کہا کہ معاملہ حساس نوعیت کا ہے عدالت کو ان کیمرا بہت سی معلومات بتانا چاہتا ہوں جس پر عدالت نے اٹارنی جنرل کی استدعا منظور کرلیثاقب نثارکے تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے معاملے پر سماعت کے دوران ریمارکس