وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پانچ عالمی طاقتوں کے سفیروں کو دفتر خارجہ بلا کر آگاہ کر دیا تھا کہ بھارتی الیکشن سے پہلے کچھ نہ کچھ ہونے کا خدشہ ہے ۔ کیا مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مظالم کا ردعمل نہیں ہو گا۔ ہمیں خدشہ تھا کہ توجہ ہٹانے کے لئے ایسے واقعات ہو سکتے ہیں۔ مودی روایتی سیاستدان کی طرح آئندہ الیکشن پر نظر رکھ کر ردعمل دے سکتے ہیں، ان کو چاہئے خطہ کے امن اور بہتری کی بات کریں ۔ بھارت کے پاس پلوامہ واقعہ کے حوالہ سے شواہد ہیں تو پاکستان کو فراہم کرے ، ہم تحقیقات بھی کریں گے اور مکمل تعاون بھی کریں گے ۔بھارت سے تعلقات میں بگاڑ نہیں امن چاہتے ہیں۔ ہمارا پیغام امن کا ہے ہمارا پیغام جھگڑے کا نہیں ، یہ کہہ دینا کہ آپ پاکستان کو مرعوب کر لو گے یہ بھی درست نہیں ، بالکل نہیں ،ہم ایک قوم ہیں ، ہم اپنا دفاع بھی کر سکتے ہیں اور اپنا مؤقف بھی پیش کر سکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار شاہ محمود قریشی نے میونخ میں نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ پلوامہ میں جو واقعہ ہوا ہے میں اس کی مذمت کرتا ہوں ، میں سمجھتا ہوں تشدد نہ ہمارا راستہ تھا اور نہ ہے، ہماری حکومت کہ یہ پالیسی نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ بھارت نے واقعہ کی تحقیقات بھی نہیں کی اور فوری طور پر پاکستان پر الزام دھر دیا، پاکستان پر تو الزام لگانا ایک منٹ کی بات ہے اور لگا دیجیئے اور اپنا ملبہ ہمارے پہ پھینک دیجیئے لیکن آج ساری دنیا اس سے قا ئل نہیں ہو گی ، دنیا نے مذمت کی ہے اور کرنی بھی چاہئے ، جانوں کا ضیاع ہوا ہے کوئی ذی شعور آدمی اس کی حمایت نہیں کر سکتا، مذمت کرنا پڑتی ہے، مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبدللہ نے کہا کہ پاکستان پر تو الزام لگانا آسان ہے مگر ہمیں دیکھنا چایئے کہ مقبوضہ کشمیر کے اندر کیا ہو رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف وزیاں ہو رہی ہیں، وہاں لوگوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ، جنازے اٹھ رہے ہیں، کیا اس کا ردعمل متوقع نہیں ، اس کا ردعمل بھی تو آسکتا ہے ، وہاں ریپ ہو رہے ہیں اور پیلٹ گن کا استعمال ہو رہا ہے یہ منطقی سی بات ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں ماسکو میں جب روسی وزیر خارجہ سے ملا تو میں نے ان سے کہا کہ مجھے خدشہ ہے اور لگ رہا ہے سیاسی مقاصد کے کہ بھارتی الیکشن سے پہلے کوئی مس ایڈوینچر ہو جائے گا ، کاش ایسا نہ ہو ۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں موجود پانچ بڑی طاقتوں کے سفیروں سے رابطہ کر لیں اور پوچھ لیں کہ کیا ہم نے انہیں دفتر خارجہ بلا کر ڈیڑھ دو ماہ پہلے بریف نہیں کیا تھا کہ ہمیں ڈر ہے کہ توجہ ہٹانے کے لئے کچھ نہ کچھ ہو سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے پاس دو آپشن ہیں ایک یہ کہ وہ روایتی سیاستدان کی طرح آئندہ الیکشن پر نظر رکھتے ہوئے اپنے ری ایکشنز اور پالیسی مرتب کریں اور دوسرا ان کے پاس سٹیٹسمین کا آپشن ہے جو خطہ کے بارے میں، اپنے ملک کی غربت کے بارے میں ، اپنے ملک کی بہتری کے بارے میں اور خطہ کی بہتری کے بارے میں سوچے اور اس کی ضرورت ہے امن، استحکام ، خطہ کا استحکام اب دیکھنا یہ ہے وہ اس ڈگر چلتے ہیں یا اُس ڈگر چلتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کہہ رہا ہے کہ الزام مت لگائیں اگر آپ کے پاس کوئی قابل عمل ثبوت ہیں تو وہ ہمیں فراہم کریں ، ہم دیانتداری سے تحقیقات کریں گے اور دیکھیں گے اس میں حقیقت کیا ہے اور یقین سے کہتا ہوں تعاون کریں گے ، ہم بگاڑ نہیں چاہتے ہم امن چاہتے ہیں ۔
بھارت سے تعلقات میں بگاڑ نہیں، امن چاہتے ہیں. شاہ محمود قریشی
Feb 16, 2019 | 11:56