عالمی ادار صحت کے سربراہ ٹیدروس اذھانوم گیبریسس نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں غذائی قلت خطرناک حدوں کو عبور کر چکی ہے اور اس وقت لاکھوں فلسطینیوں کی زندگیاں موت کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ ایک پریس کانفرنس میں گیبریسوس نے واضح کیا کہ غزہ کے 90 فیصد عوام کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں، اور وہ روزمرہ کی بنیادی ضروریات کے لیے بھی شدید ترین مشکلات سے دوچار ہیں۔انہوں نے کہا کہ عالمی ادار صحت کے کارکنان غزہ میں موجود رہنے کے لیے پرعزم ہیں اور انہوں نے اقوام متحدہ کے تمام ذیلی اداروں اور عملے کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔گیبریسس نے انکشاف کیا کہ غزہ میں جہاں امدادی اشیا کی تقسیم کے نئے مراکز قائم کئے گئے تھے، وہ سب اب تشدد اور خونریزی کے مقامات میں بدل چکے ہیں۔انہوں نے دل دہلا دینے والی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا کہ خوراک حاصل کرنے کی کوشش کے دوران اب تک ایک ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔غزہ میں انسانی المیہ اپنی بدترین شکل اختیار کر چکا ہے۔ اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی امدادی ایجنسی انروا نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں اس کے اپنے ملازمین سمیت لاکھوں افراد فاقہ کشی کے باعث بے ہوش ہو رہے ہیں، اور ان کی زندگیاں لمحہ بہ لمحہ موت کے قریب پہنچ رہی ہیں۔قابض اسرائیل نے مارچ سے غزہ کے تمام بری راستے بند کر رکھے ہیں، جہاں ہزاروں ٹرک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھیجی گئی امداد لیے کھڑے ہیں مگر انہیں داخلے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ ان میں دوائیں، خوراک، صاف پانی اور ہنگامی طبی امداد شامل ہے، جس کی فوری ضرورت ہے۔یہ ناکہ بندی اب 140 دن سے زائد ہو چکی ہے۔ اس دوران قابض اسرائیل نے نہ صرف جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی بلکہ قیدیوں کے تبادلے پر ہونے والے سابقہ معاہدے کو بھی عملی جامہ نہیں پہنایا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قابض ریاست نے بین الاقوامی قوانین اور معاہدات کو پامال کرنے کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔
غزہ میں غذائی قلت خطرناک حدوں کو عبور کر چکی، لاکھوں فلسطینیوں کی زندگیاں خطرے میں۔ عالمی ادارہ صحت
Jul 24, 2025 | 14:54