ﺩﯾﺎﺭِ ﻋﺸﻖ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮ !
ﻧﯿﺎ ﺯﻣﺎﻧﮧ, ﻧﺌﮯ ﺻﺒﺢ ﻭ ﺷﺎﻡ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮ
شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے معروف مفکر، شاعر، مصنف، قانون دان، سیاست دان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ علامہ اقبال محض ایک فلسفی شاعر ہی نہیں بلکہ انسانوں کے انسانوں کے ہاتھوں استحصال کے بھی خلاف تھے۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اُن کو اپنی منزل آسمانوں میں
علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونکی، جو تحریکِ آزادی میں بے انتہا کارگر ثابت ہوئی۔ اقبال کا مثالی نوجوان خود دار، تعلیم یافتہ، یقین محکم اور عمل پیہم کی خوبیوں کا حامل نوجوان ہے۔ اقبال نے اپنے اشعار میں مسلم نوجوان کو ستاروں پر کمند ڈالنے اور قوم کو خانقاہوں سے نکل کر میدان عمل میں اترنے کی ترغیب دی۔۔۔
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
علامہ اقبال کے شعری مجموعوں میں بانگ درا، ضرب کلیم، بال جبرئیل، اسرار خودی، رموز بے خودی، پیام مشرق، جاوید نامہ شامل ہیں۔۔۔۔ آپ کی تعلیمات اور قائد اعظم کی ان تھک کوششوں سے ملک آزاد ہوگیا اور پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ پاکستان کا خواب دیکھنے والے علامہ اقبال پاکستان کی آزادی سے پہلے ہی 21 اپریل 1938 کو علامہ انتقال کر گئے، تاہم ایک عظیم شاعر اور مفکر کے طور پر قوم ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔
علامہ اقبال نہ صرف برصغیر بلکہ عالم اسلام کے اُن عظیم شعراء میں شمار کیے جاتے ہیں، جن کا کام ہمہ جہت اور جدوجہد شش جہت تھی۔ شاعر مشرق نے فلسفہ خودی کے ذریعے انسان کو رفعت کی بلندیوں تک سفر کرنے کا درس دیا۔ انفرادی سطح پر خودی پر عمل کرنے سے انسان ہر خواہش نفسانی اور آرزو فانی سے نجات پا جاتا ہے اور آرزوئیں پالنے کے بجائے اللہ کی بندگی اور اطاعت کو اپنا اولیں فرض سمجھنا شروع کر دیتا ہے، یہ فلسفہ خودی ہی ہے جو اُسے کسی کے سامنے جھکنے سے بچا لیتا ہے، اجتماعی سطح پر پوری قوم غیرت مند بن جاتی ہے اور کاسہ لیے در در بھیک مانگنے سے بچ جاتی ہے۔۔ پھر ہی اللہ اُس پر اپنی نوازشات کی بارش کر دیتا ہے۔۔
علامہ اقبال کو یقینِ کامل تھا کہ کرہِ ارض کا انسان اگر فلسفہ خودی پر عمل کر لے تو بلندیوں اور عظمتوں کی انتہاؤں کو چھو سکتا ہے اور لامکاں تک اس کی رسائی کو روکنا کسی فرد کیلئے ممکن نہ ہو گا۔