نوازشریف کی نا اہلی کا فیصلہ متفقہ اور بہت محتاط ہو کر دیاہے۔ سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے پاناما کیس کے فیصلے پر شریف خاندان کی نظر ثانی اپیلوں کی سماعت میں ریمارکس دیئے کہ نوازشریف کی نا اہلی کا فیصلہ متفقہ اور بہت محتاط ہو کر دیاہے، اس بات کا خیال رکھا گیا کہ کوئی دوسرا ٹرائل متاثر نہ ہو، یہ کہیں نہیں لکھا دو تین کا تناسب ہے، نااہلی کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں لیکن نتیجہ ایک ہی تھا، دونوں فیصلوں میں نواز شریف کو نااہل کیا گیا فیصلے میں اکثریت کی بنیاد پر ہی دستخط کیے جاتے ہیں، نیب کورٹ کو ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ بھی متفقہ طور پر دیا گیا،عدالت نے نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کو جمعرات تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کر تے ہوئے سماعت ملتوی کردی ۔بدھ کو جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانج رکنی بینچ نے پاناما کیس کے فیصلے پر شریف خاندان کی نظر ثانی کی درخواستوں کی سماعت کی۔سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے ان کے وکیل خواجہ حارث اور حسن، حسین اور مریم نواز کی جانب سے سلمان اکرم راجا ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔ اس موقع پر نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ 28جولائی کا فیصلہ پانچ رکنی بینچ نے سنایا تھا جبکہ دو ججز بیس اپریل کو اپنا فیصلہ دے چکے تھے20 اپریل کے فیصلے کے بعد دو ججز کے بینچ میں بیٹھنے کا جواز نہیں تھا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ دوججوں کا 20 اپریل کا فیصلہ آپ نے کہیں چیلنج نہیں کیا؟ جواب میں خواجہ حارث نے کہا کہ دو ججوں کے فیصلے کی قانونی حیثیت نہیں تھی اکثریتی فیصلے کو تسلیم کیا گیا تھا اس لئے چیلنج نہیں کیا۔خواجہ حارث نے دلائل میں یہ نکتہ اٹھایا کہ نوازشریف کو ایف زیڈ ای کمپنی کے معاملے پر نااہل کیا گیا آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی کیلئے باقاعدہ سماعت کی ضرورت ہے جبکہ شوکاز نوٹس دینا اورمتاثرہ فریق کو سننا ضروری ہے۔ آرٹیکل 62ون ایف کا طریقہ نااہلی سے متعلق مختلف ہے قانون کے مطابق اثاثے نہ بتانے پر انتخاب کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ اثاثے نہ بتانے پر کامیاب امیدوار کو نااہل نہیں کیا جا سکتا ۔ پاناما لیکس کیس میں نیب کو ریفرنس دائر کرنے کا حکم دینا بھی قانون کے مطابق نہیں ہے ، نوازشریف کو فیئرٹرائل کا موقع ملنا چاہیئے،آج تک تحقیقات اور ٹرائل پر مانیٹرنگ جج کی تعیناتی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ 28جولائی کے فیصلے میں یہ نہیں لکھا تھا کہ فیصلہ دینے والے ججز ہی عملدرآمد کرائیں گے، 28جولائی کو پانچ رکنی بنچ فیصلہ نہیں کرسکتا تھا جس پر عدالت نے کہا کہ 28جولائی کو 2ججز نے فیصلے میں کوئی اضافہ نہیں کیا تھاا ور پہلے فیصلہ دینے والے ججز نے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کیا۔ خواجہ حارث نے دلائل کے دوران نکتہ اٹھایا کہ جب آپ 20اپریل کو فیصلہ دے چکے تو دوبارہ کیسے آسکتے ہیں؟۔ جس پر عدالت نے جواب دیا کہ 28جولائی کو پہلے تین ججز پر مشتمل بینچ کا فیصلہ پڑھا گیا پھر 5 رکنی بینچ کا، ججز نے فیصلہ دیا تھا مگر کیس ختم نہیں ہوا تھا فیصلے میں اکثریت کی بنیاد پر ہی دستخط کیے جاتے ہیں ہم نے 28جولائی سے قبل یہ بتادیا تھا کہ تمام ججز حتمی فیصلے پر پہنچ چکے ہیں، یہ بھی کہا گیا تھا کہ فیصلہ تین ججز کے فیصلے کی بنیاد پر ہے مواد مختلف ہوسکتا ہے لیکن نتیجہ ایک ہی تھا دونوں فیصلوں میں نواز شریف کو نااہل کیا گیا فیصلے میں اکثریت کی بنیاد پر ہی دستخط کیے جاتے ہیں۔دوران سماعت خواجہ حارث ایڈوکیٹ نے کہا کہ اگر تین میں سے دو ججز درخواستیں خارج کردیتے تو فیصلہ کیا ہوتا؟ جس پر جسٹس عظمت نے کہا کہ ایسی صورت میں 3/2کی اکثریت سے فیصلہ ہوجاتا،خواجہ حارث نے کہا کہ 2ججز حتمی فیصلہ دے کر خود ہی بنچ سے نکل گئے جس پر جسٹس کھوسہ نے استفسارکیا کہ تین ججز نے کہاں لکھا ہے کہ 2ججز کا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں چلا گیا، خواجہ حارث نے کہا کہ کوئی الگ سے 5 رکنی بنچ قائم ہوتا تو معاملہ الگ ہوتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کہتے ہیں اگر تین ججز کا فیصلہ اختلافی ہوتا تو نااہلی نہ ہوتی، پہلے 2 ججز کہہ چکے تھے مزید ایک جج بھی نااہل کرتا تو 3/2 سے فیصلہ ہونا تھا لیکن حتمی عدالتی فیصلہ پھر بھی 5ججز کا ہی ہونا تھا۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ تین ججز نے فیصلہ تبدیل کیا تو عدالتی حکم تبدیل ہوجائے گا۔دوران سماعت جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ 28جولائی کا فیصلہ متفقہ تھا یہ کہیں نہیں لکھا دو تین کا تناسب ہے، نوازشریف کو سب ججز نے متفقہ طور پر نااہل کیا لیکن وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں جبکہ نیب کورٹ کو ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ بھی متفقہ طور پر دیا گیا اور 28جولائی کے فیصلے میں سابقہ فیصلے کے تسلسل کا لکھا ہے، تسلسل کا مطلب ہے کہ تمام 5 ججز دستخط کریں گے۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہمارا موقف ہے کہ فیصلہ تین رکنی بینچ نے کرنا تھا دیکھنا ہے فیصلہ تین رکنی بنچ کا تھا یا پانچ رکنی کالیکن حقیقت یہ ہے کہ 20اپریل کو دو تین کے تناسب کی ججمنٹ پاس ہوئی جس پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ 3ممبرز بنچ کے فیصلے میں کچھ غلط ہے تو بتائیں جو باتیں واضح ہیں انہیں بار بار کیوں دہرایا جارہاہے؟عدالت نے ایڈووکیٹ خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز آپ ہی نے 5رکنی لارجر بنچ پر زور دیا تھا آپ کے پرزور اصرار پر ہی ہم بنچ میں بیٹھے ہیں ہم کہتے ہیں تین رکنی بنچ کا فیصلہ ہی حتمی ہے اس فیصلے میں ردوبدل ہی آرڈر آف کورٹ کو چیلنج کرسکتی ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ جنہوں نے کیس نہیں سنا تھا ان کے سامنے نظر ثانی پر کیا دلائل دوں؟جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہی بات تو کل بھی آپ کو سمجھا رہے تھے،بنچ کے سربراہ نے کہا کہ چلیں آپ ہمیں چھوڑیں تین ججز کوہی اپنے دلائل سے قائل کرلیں آپ نے 3ججز کو مطمئن کرنا ہے انہیں کرلیں، ہم 2جج تین ججز کے فیصلے سے اختلاف کریں یا نہ کریں اس سے فرق نہیں پڑتا۔ جسٹس اعجاز افضل نے خواجہ حارث کے دلائل کواکیڈمک قرار دیتے ہوئے کہا کہ آپ کیس کے دوسرے نکات پر بات کریں ،جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ سابق وزیراعظم کو کیپیٹل ایف زیڈ ای کے تحت نااہل قرار دینے سے قبل قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے ، جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اقلیتی فیصلہ نواز شریف کی تقاریر کی بنیاد پر ہوا ، تین ججوں نے انہیں اخلاقی نہیں قانونی نقطہ پر نااہل کیا۔جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اثاثے ظاہر نہ کرنے اور صادق اور امین کے تحت نااہلی کے لئے الگ قانونی تقاضے ہیں ۔ اثاثے ظاہر نہ کرنے پر باسٹھ ون ایف کے تحت تاحیات نااہل قرار دینا درست نہیں، اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ دس ہزار درہم ارب پتی کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے ۔اس پر وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نوازشریف نے اپنے بیٹے سے کبھی تنخواہ وصول ہی نہیں کی اور اس معاملے پر استغاثہ اور جے آئی ٹی نے بھی تنخواہ وصول کرنے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ غیر وصول شدہ تنخواہ اثاثہ ہوتی ہے ، ہم نے پاناما فیصلہ بہت محتاط ہو کر دیا ہے،اور اس بات کا خیال رکھا ہے کہ کوئی دوسرا ٹرائل متاثر نہ ہو ، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی مزید سماعت جمعرات تک ملتوی کردی، وزیراعظم کے وکیل اپنے دلائل جاری رکھیں گے ۔