سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو تیرہ فروری کوطلب کرلیا، آئندہ سماعت پر ان پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔
این آراوعملدرآمد کیس میں وزیراعظم کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے کی۔ اپنے دلائل میں سید یوسف رضا گیلانی کے وکیل چودھری اعتزاز احسن نے کہا کہ صدر مملکت کے خلاف سوئس حکام کو خط لکھنے کے حوالے سے وزیرقانون، لاء ڈویژن اور اٹارنی جنرل کی رائے ایک ہی تھی جس پر وزیراعظم نے عمل کیا۔ جسٹس ناصرالملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ وزیراعظم کو وزارت قانون سےملنے والی رائے پرانحصارکررہے ہیں جبکہ عدالت کا فیصلہ بہت واضح ہے۔ ایسی کوئی ہدایت نہیں دی گئی کہ عملدرآمد کےبجائے لاء ڈویژن سے رائے لی جائے۔ جسٹس اطہرسعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا وزیراعظم لاء ڈویژن کی رائے مسترد نہیں کرسکتے تھے؟جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ستائیس ستمبردوہزاردس کوعدالت کوبتایا گیا کہ وزیراعظم خط لکھنے کے معاملے پر مزید قانونی مشاورت چاہتےہیں، اگروزیراعظم قانونی رائے پرمشکل میں تھے تو سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ صرف ایک درخواست دیتےاوران کی قانونی رائے کا مسئلہ حل ہوجاتا۔ جسٹس ناصرالملک نے استفسارکیا کہ کیا سیکرٹری قانون نے صرف یہ رائے دی تھی کہ سوئس مقدمات اب نہیں کھل سکتے۔ وزیراعظم نے صدر کے استثنیٰ کو بنیاد کیسے بنالیا؟ اعتزازاحسن نے کہا وہ صدر کے استثنیٰ کا مقدمہ نہیں لائے جس پرجسٹس ناصرالمک نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا یہی مقدمہ ہے۔ وزیراعظم نے خود اعتراف کیا کہ صدرکو استثنیٰ حاصل ہے اس لیے انہوں نے خط نہیں لکھا۔ اعتزازاحسن کا کہنا تھا کہ وزارت قانون کی رائےاگرغلط بھی تھی تو وزیراعظم پرتوہین عدالت کا اطلاق نہیں ہوتا اور نہ ہی اس مقدمہ میں سزا دی جاسکتی ہے۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے جس سوچ کے تحت خط نہیں لکھا وہ اسے درست سمجھتے تھے لہذا انہیں شک کا فائدہ ملنا چاہیئے۔ عدالت عظمی نےآدھے گھنٹے کے وقفے کے بعد وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو تیرہ فروری کو پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔ آئندہ سماعت پروزیراعظم پر توہین عدالت کیس میں فردجرم عائد کی جائے گی۔