حتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف سنائے گئے ایون فیلڈ ریفرنس کا مکمل متن یہاں پڑھیں۔
بعدالت جناب محمد بشیر ، جج احتساب عدالت اسلام آباد
ریفرنس نمبر 20/2017 (ایون فیلڈ اپارٹمنٹس نمبر 16 ، 16A ، 17 ، 17A)
سرکار بنام
(1) میاں محمد نواز شریف ولد میاں محمد شریف ، عمر 69 سال ، سکنہ شمیم فارمز ، جاتی امراء ، رائیونڈ لاہور
(2) مریم نواز (مریم صفدر) دختر میاں محمد نواز شریف ، عمر 43 سال ، سکنہ شمیم فارمز ، جاتی امراء ، رائیونڈ لاہور
(3) کیپٹن (ر) محمد صفدر ولد محمد اسحاق ، عمر تقریباً 54 سال ، سکنہ سکنہ شمیم فارمز ، جاتی امراء ، رائیونڈ لاہور
(4) حسین نواز شریف ولد میاں محمد نواز شریف ، عمر تقریباً 45 سال ، سکنہ شمیم فارمز ، جاتی امراء ، رائیونڈ لاہور (مفرور ملزم)
(5) حسن نواز ولد میاں محمد نواز شریف ، عمر تقریباً 41 سال ے سکنہ شمیم فارمز ، جاتی امراء ، رائیونڈ لاہور (مفرور ملزم)
فیصلہ
استغاثہ کا موقف حسب ذیل ہے
مقدمہ کے حقائق یہ ہیں کہ زیر دفعہ 18(g) اور نیب آرڈیننس 1999 کی دفعہ 24(d) (کو ساتھ ملا کر پڑھا جائے) کے تحت مندرجہ بالا پانچ ملزمان کے خلاف عبوری ریفرنس دائل کیا گیا۔ ان ملزمان میں سے دو حسین نواز اور حسن نواز سمن ، وارنٹ کے اجراء کے باوجود عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر انہیں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 87 ، 88 کے تحت اشتہاری قرار دیا گیا۔ اس حوالے سے تمام تقاضے پورے کرنے کے بعد ان دو ملزمان کو مقدمے میں مفرور ؍ اشتہاری قرار دیا گیا۔
-2 مبینہ طور پر ’’پانامہ پیپرز‘‘ پانامہ کی لاء فرم موسیک فونسیکا کے ریکارڈ سے منظر عام پر آئے جن میں میاں نواز شریف ، مریم صفدر (نواز) ، کیپٹن (ر) محمد صفدر ، حسین نواز اور حسن نواز پر آف شور کمپنیوں کے ساتھ مبینہ تعلق کا الزام سامنے آیا۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں اٹھایا گیا۔ سپریم کورٹ میں کیس کی کارروائی کے دوران ملزمان نے اپنے اپنے موقف ، خطوط اور دیگر دستاویزات پیش کیں۔
-3 معزز عدالت عظمیٰ نے سوالات تیار کئے اور معاملے کی تحقیقات ، شواہد اکٹھے کرنے کیلئے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی ۔
-4 مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو ایک متفرق درخواست سی ایم اے نمبر 2939 سال 2017ء (آئینی پٹیشن نمبر 29/2016 وغیرہ میں) میں 5 جولائی 2017ء کو تحقیقات سے متعلق ضابط فوجداری 1898 ، نیب آرڈیننس 1999 ء اور فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی ایکٹ 1975ء کے تحت تمام اختیارات دئیے گئے ۔
-5 جے آئی ٹی نے تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ سپریم کورٹ آف پاکستان کو 12 والیمز کی صورت میں پیش کی۔
-6 معزز عدالت عظمیٰ نے نیب کو چھ ہفتوں میں ملزمان کے خلاف ایون فیلڈ فلیٹس نمبر 16 ، 16A ، 17 ، 17A واقع ایون فیلڈ ہائوس ، پارک لین لندن سے متعلق جے آئی ٹی کی جانب سے اکٹھے اور پیش کئے گئے شواہد کی روشنی میں ریفرنس تیار اور دائر کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی ہدایت کی کہ اگر ایف آئی اے اور نیب کے پاس بھی ان فلیٹس سے متعلق کوئی شواہد ہوں تو انہیں بھی شامل کیا جائے۔ مدعا علیہ نمبر 1 میاں نواز شریف ، مدعا علیہ نمبر 6 مریم نواز شریف (مریم صفدر) ، مدعا علیہ 7 حسین نواز شریف ، مدعا علیہ 8 حسن نواز شریف اور مدعا علیہ 9 کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ فلیٹس نمبر 16 ، 16A ، 17 ، 17A واقع ایون فیلڈ ہائوس ، پارک لین لندن جائیداد کے سلسلے میں ریفرنس کی تیاری اور دائر کرتے وقت پہلے کی جانیوالی تحقیقات کے دوران اکٹھے کئے گئے شواہد کو بھی مدنظر رکھا جائے۔
(e) نیب آمدن سے زائد اس جائیداد (فلیٹس) کے حصول کے سلسلے میں مدعاعلیہ نمبر 1 ، 6 ، 7 ، 8 اور 10 کے ساتھ بالواسطہ یا بلا واسطہ معاونت فراہم کرنے پر شیخ سعید ، موسیٰ غنی ، کاشف مسعود قاضی ، جاوید کیانی اور سعید احمد سمیت دیگر تمام افراد کو کارروائی میں شامل کرے گا۔
(f) اگر ملزمان کے خلاف آمدن سے زائد کسی اور جائیداد کا پتہ چلے تو نیب ان کے خلاف سپلیمنٹری ریفرنس (ریفرنسز) دائر کر سکتا ہے۔
(h) اگر احتساب عدالت ملزمان یا ان کے ایماء پر کسی اور کی جانب سے پیش کی گئی کسی دستاویز ، معاہدے یا بیان حلفی کو جعلی یا غلط پائے تو متعلقہ افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے گی۔
-7 اس سے قبل سال 2000ء میں مدعا علیہ 1 اور دیگر کے خلاف انہی الزامات پر تحقیقات کی گئی تھیں لیکن تازہ تحقیقات سپریم کورٹ کے حکم پر 3 اگست 2017ء کے خط کی بنیاد پر کی گئیں اور نیب لاہور کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد عمران کو مجاز بنایا گیا۔
-8 یہ بھی الزام لگایا گیا کہ ملزمان کو تحقیقات کے دوران بلایا گیا لیکن انہوں نے یہ موقف لیا کہ سپریم کورٹ کے 28 جولائی 2017ء کے حکم نامے پر نظر ثانی کی ایک درخواست دائر کی ہے لہٰذا اس کے فیصلے تک تحقیقات موخر کی جائیں۔
-9 7 نومبر 2017ء کو ایک عبوری ریفرنس دائر کیا گیا جس میں ملزمان پر دفعات 9(a)(iv)(v) اور (xii) کے تحت کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز ، نیب آرڈیننس 1999ء کی دفعہ 10 (کو منسلکہ شیڈول کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے) کے تحت جرم کے ارتکاب کا الزام لگایا گیا۔
-10 اس عدالت نے قانون کے مطابق ملزمان کے سمن جاری کئے، دو ملزمان حسین نواز اور حسن نواز پیش نہ ہوئے جس پر انہیں اشتہاری قرار دیا گیا جبکہ باقی پیش ہونیوالے تین ملزمان کو ریفرنس ، دستاویزات کی نقول فراہم کی گئیں۔
-11 تینوں ملزمان پر مشترکہ فرد جرم عائد کی گئی بعد میں مدعا علیہ نمبر 2 اور 3 کی درخواست پر اس میں ترمیم کی گئی۔ ملزمان کے خلاف جو آخری الزام عائد کیا گیا اس کا متعلقہ حصہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔
’’آپ ملزم میاں محمد نواز شریف عوامی عہدے پر فائز تھے۔ آپ اور آپ کے اہل خانہ ؍ زیر کفالت افراد ایون فیلڈ مے فیئر جائیداد اپارٹمنٹ نمبر 16 ، 16A ، 17 ، 17A واقع پارک لین لندن کے مالک و قابض ہیں اور یہ فلیٹس 1993ء سے آپ اور آپ کے اہل خانہ کے قبضہ میں ہیں۔ مذکورہ جائیداد کی خریداری کے لئے سرمائے کا ذریعہ آف شور کمپنیاں میسرز نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ اور میسرز نیسکول لمیٹڈ اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹ انہی کمپنیوں کی ملکیت کا جواز درست نہیں اور ان کمپنیوں کے حصص رکھنے والوں کو مذکورہ جائیداد کے ذریعے شفاف بنایا گیا۔
آپ ملزم میاں محمد نواز شریف ، مریم نواز اور مفرور ملزمان حسین نواز اور حسن نواز مذکورہ جائیداد کی خریداری کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے۔
آپ ملزمہ مریم نواز ایون فیلڈ جائیداد کی ملکیت رکھنے ان کمپنیوں کی بینفشل اونر ہیں۔ کیلبری فونٹ میں جعلی معاہدہ از مورخہ 2 فروری 2016ء پیش کیاگیا حالانکہ اُس سال میں ایسا فونٹ اس طرح کے معاہدوں کے لئے دستیاب نہیں تھا۔ اس معاہدے پر آپ ملزمہ مریم نواز اور شریک ملزم کیپٹن (ر) محمد صفدر نے بطور گواہ دستخط کئے۔ یہ معاہدہ پیش کر کے آپ نے تحقیقاتی ایجنسی کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔
آپ ملزمہ مریم نواز شریف نے جان بوجھ کر مذکورہ اثاثوں کی ملکیت کے بارے میں اصل حقائق اور کمپنیوں کو چھپایا۔ اور آپ سمیت تمام دیگر ملزمان بشمول اشتہاری قرار دئیے گئے ملزمان دستیاب فنڈز کے ذرائع اور ان کی بیرون ملک قانونی منتقلی بتانے میں ناکام رہے۔ جس وقت یہ جائیداد خریدی گئی اس وقت مفرور قرار پانے والے ملزمان کے ذرائع آمدن موجود نہ تھے۔
اس طرح آپ ملزمان میاں محمد نواز شریف ، مریم نواز شریف اور کیپٹن (ر) محمد صفدر دفعات 9(a)(iv)(v)&(xii) اور نیب آرڈیننس 1999ء کی دفعہ 10 کے تحت قابل سزا جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔
-12 نیب آرڈیننس 1999ء کے ساتھ منسلک شیڈول کی سیریل نمبر 3(a) کے تحت جرم سے متعلق حکم نامہ جاری کیا گیا ، یہ عدالت فیصلے کے اعلان میں اس جرم کو سنجیدگی سے لے گی۔
-13 ملزمان نے الزامات ماننے سے انکار کیا۔
-14 استغاثہ نے 18 جنوری 2018 کا ریفرنس جو 22 جنوری 2018ء کو دائر کیا گیا اس میں آٹھ گواہان پیش کئے۔
-15 اس مقدمہ میں کل 18 گواہوں کے بیانات قلمبند کئے گئے۔ 8 مئی 2018ء کو استغاثہ نے شہادتیں ختم کیں۔
-16 ٹرائل کا سامنا کرنیوالے تینوں ملزمان کے بیانات ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت قلمبند کئے گئے۔انہوں نے اپنے دفاع میں گواہان پیش نہ کرنے کو ترجیح دی۔ انہوں نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 340(2) کے تحت جرح بھی نہیں کی۔
-17 میں نے دلائل سنے اور ریکارڈ کا جائزہ لیا۔
-18 استغاثہ کی جانب سے درج ذیل شہادتیں پیش کی گئیں۔
گواہ استغاثہ 1 : جوائنٹ رجسٹرار آف کمپنیز کمپنی رجسٹریشن آفس لاہور ایس ای سی پی مسماۃ سدرہ منصور نے نیب کے خط مورخہ 15 اگست 2017ء جو چیئرمین ایس ای سی پی کو لکھا گیا تھا ، کی روشنی میں بتایاکہ وہ نیب لاہور کے انوسٹی گیشن آفیسر کے روبرو 23 اگست 2017ء کو پیش ہوئیں اور ریکارڈ کی مصدقہ نقول پیش کیں۔ یہ ریکارڈ تفتیشی افسر نے بذریعہ سیزر میمو اپنے قبضہ میں لے لیا اور اس پر انہوں نے دستخط کئے اور انگوٹھے کا نشان ثبت کیا۔جو ریکارڈ پیش کیا اس کی تفصیل یہ ہے۔
(i)سال 2000 سے 2005ء تک طویل مدتی قرضوں سے متعلق سالانہ آڈٹ اکائونٹس رپورٹ معہ کورنگ لیٹر مورخہ 18 اگست 2018
(ii) 30جون 2000ء کو اختتام پذیر ہونیوالے مالی سال کے لئے حدیبیہ پیپر ملز لمیٹڈ کے سالانہ آڈٹ اکائونٹس کی مصدقہ نقول
(iii) 30 جون 2001 ء کو اختتام پذیر ہونیوالے مالی سال کے لئے حدیبیہ پیپر ملز لمیٹڈ کے سالانہ آڈٹ اکائونٹس کی مصدقہ نقول
(iv) 30 جون 2002ء کو اختتام پذیر ہونیوالے مالی سال کے لئے حدیبیہ پیپر ملز لمیٹڈ کے سالانہ آڈٹ اکائونٹس کی مصدقہ نقول
(v) 30 جون 2003 ء کو اختتام پذیر ہونیوالے مالی سال کے لئے حدیبیہ پیپر ملز لمیٹڈ کے سالانہ آڈٹ اکائونٹس کی مصدقہ نقول
(vi) 30 جون 2004ء کو اختتام پذیر ہونیوالے مالی سال کے لئے حدیبیہ پیپر ملز لمیٹڈ کے سالانہ آڈٹ اکائونٹس کی مصدقہ نقول
(vii) 30 جون 2005 ء کو اختتام پذیر ہونیوالے مالی سال کے لئے حدیبیہ پیپر ملز لمیٹڈ کے سالانہ آڈٹ اکائونٹس کی مصدقہ نقول
مسماۃ سدرہ منصور اوپر بیان کئے گئے نقول کا اصل ریکارڈ ساتھ لائیں جو کمپنی نے عدالت کے جائزے کے لئے فراہم کیا تھا (ریکارڈ دیکھ کر واپس کر دیا گیا)۔ طویل مدتی قرضہ 494,960,000/- روپے تھا۔ اس طویل مدتی قرضے کا سٹیٹس 30 جون 2000ء سے لے کر 30 جون 2005ء تک ایک جیسا رہا۔ تفتیشی افسر نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کے تحت مسماۃ سدرہ منصور کا بیان بھی قلمبند کیا۔
استغاثہ گواہ 2 : محمد رشید ولد محمد مسکین (کورٹ کلرک) اوور ڈگنم اینڈ کمپنی ، ماریانہ ہائٹس سیکنڈ فلور 109 ، ایسٹ جناح ایونیو بلیو ایریا اسلام آباد نے بیان کیا کہ ایک لیٹر بمورخہ 5 ستمبر 2017ء جو نیب لاہور کی طرف سے مسٹر ریاض سینئر پارٹنر اموور ڈگنم اینڈ کمپنی کو لکھا گیا ، موصول ہوا۔
نیب لاہور سے وصول کیں، کچھ دستاویزات اس خط کے ذریعے طلب کی گئیں اور وہ 6/9/17کو دستاویزات کے ہمراہ نیب آفس لاہور میں تفتیشی افسر عمران سے ملا ،اس نے اسے لفافے میں بند دستاویزات حوالے کیں ،جس نے لفافہ کھولا تو اس میں سے یہ دستاویزات نکلیں، اول ،5/9/17کا ایک کورنگ لیٹر ،دوئم ،کوئین بنچ کے حکم کی فوٹو کاپیاں،جوکہ چار صفحات پرمشتمل تھیں ،سوئم ریفرنس کے صفحہ نمبر 117تا122پر مظہر خان بنگش کے بیان حلفی کی فوٹو کاپیاں دستیاب ہیں ،پی ڈبلیو3مظہر خان بنگش ایڈوکیت اور راجہ برکت گلیٹی ایڈوکیٹ سکنہ اسلام آباد نے بتایا کہ میں 30/8/17کو نیب کے تفتیشی عمران کے سامنے نیب لاہو ر میں پیش ہوا ،،اسے چند دستاویزات دکھائیں،جن میں کوئین بنچ کے 1999کے حکم کی کاپی سروس بیان حلقفی کی کاپی اور شیزی نقوی کا بیان حلفی بھی شامل تھا ،وکیل نے بتایا کہ سروس کا بیان حلفی اس سے متعلق تھا ،وہ OrrDignam & Coکو بھجوایا گیا تھا ،اس نے کہا کہ اسے نہیں معلوم کہ کمپنی کے مالک نے کیا طریقہ کار اختیارکیا تھا ،تفتیشی نے اس کا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان قلمبند کیا تھا ،پی ڈبلیو 4 تھانہ نیب لاہور کے سب انسپکٹر مختار احمد نے بیان کیا کہ اسے تفتیشی نے ریفرنس نمبر 20/2017میں 5دفعہ طلب کیا تھا اور وہ شمیم فارم رائے ونڈ روڈ جاتی امراء لاہور گیا ،اس کے پاس میاں نواز شریف ،کیپٹن صفدر ،بی بی مریم ،حسین نواز اور حسن نواز کے طلبی کے نوٹسز تھے ، جہاںاس کی ملاقات سیکورٹی افسر عطا اللہ کے ساتھ ہوئی جس نے میاں نواز شریف ،کیپٹن صفدر اوربی بی مریم کے نوٹسز تو وصول کرلئے لیکن حسین نواز اور حسن نواز کے طلبی کے نوٹسز لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ بیرون ملک رہتے ہیں، اس نے یہ نوٹسز تفتیشی کو واپس کئے اور تفتیشی نے اس کا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان قلمبند کیا تھا، پی ڈبلیو5محمد عدیل اختر اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیب لاہور نے بیان کیا کہ میں نے صفحہ نمبر 62اور 111والے میمو ضبط کئے تھے ،اور ان پر میرے دستخط بھی موجود ہیں، اس نے مزید بتایا کہ وہ23اگست 2017کو محمد عمران کے سامنے میاںنواز شریف کے خلاف کیس میں شامل تفتیش ہوا ،تو کمپنی کی جوائنٹ رجسٹرار سدرہ منصور پیش ہوئیں اور حدیبیہ پیپرز ملز کیس کی دستاویزات پیش کیں اور ضبطگی کا میمو ان کے سامنے تیار کیا گیا ،جس پر انہوںنے ،میں نے اور تفتیشی نے دستخط کئے تھے ، سدرہ منصور نے جو ریکارڈ پیش کیا تھا وہ 48صفحات پر مشتمل تھا ،تفتیشی نے ان کا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان قلمبند کیا تھا ،6/9/17کو OrrDignam & Co کے کلرک محمد رشید نے ریکارڈ پیش کیا جس میں کوئین بنچ کا بیان حلفی اور کورنگ لیٹر موجود تھا،تفتیشی نے ان کی ضبطگی کا میمو تیار کیا اور اس پر اپنے ، محمد رشید کے اور دیگر افراد کے دستخط لئے تھے ،جبکہ محمد رشید ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان بھی قلمبند کیا تھا،پی ڈبلیو6ایدیشنل ڈائریکٹر نیب ہیڈ کوارٹر اسلام آباد شکیل انجم ناگرہ نے بیان کیا کہ15/8/17کوایڈیشنل ڈائرکیٹر کوآرڈینیشن پراسیکیوشن ونگ نے رجسٹرار سپریم کورٹ کے نام جے آئی ٹی کی رپورٹ کے والیم 1تا10 کی مصدقہ نقول فراہم کرنے کے حوالے سے درخواستیں لکھی تھیں،جس پر 17/817کو اسسٹنٹ رجسٹرار محمد مجاہد نے والیم 1تا9کی تین تین نقول جبکہ والیم 10 کے چار سیٹ فراہم کئے ،انہوںنے ان میں سے ایک سیٹ تیار کرکے کورنگ لیٹر کے ہمراہ 25/8/17کونیب لاہور میں پیش ہوکر تفتیشی کو جمع کروایا اور اپنا بیان قلمبند کروایا ،پی ڈبلیو 7اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیب لاہور زوار منظور نے بیان کیا کہ 23اگست 17کو وہ میاں نواز شریف کے خلاف ہونے والی تفتیش میں تفتیشی کے سامنے پیش ہوا ،تو کمپنی کی جوائنٹ رجسٹرار سدرہ منصور بھی پیش ہوئیں اور دو صفحات پر مشتمل ایک لیٹر پیش کیا جوکہ مختلف آڈٹ سے متعلق تھا ،یہ دستاویات تفتیشی نے ضبطگی کے میمو میں شامل کیں اور میں نے بطور گواہ اس پر دستخط کئے تھے،پی ڈبلیو 8تھانہ نیب کے سب انسپکٹر عمر دراز نے بیان کیا کہ 16/8/17کووہ طارق شفیع کو طلبی کا نوٹس دینے کے لئے ان کی ماڈل ٹائون کی رہائش پر گیا تو وہاں پر تعینات ایک سیکورٹی گارڈ عبدالطیف نے بتایا کہ وہ تو اپنے خاندان کے ہمراہ 20/7/17کو بیرون ملک چلے گئے ہیں، اس نے نوٹس لینے سے انکار کردیا تو میں واپس چلا آیا،اسی روز ہی موسیٰ غنی کی رہائش گلبرگ لاہور گیا تو پویس گارڈ کے انچارج عامر سے ملاقات ہوئی ،جس نے بتایا کہ یہاں پر اس نام کا کوئی شخص نہٰن رہتا ہے بلکہ یہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق دار کی رہائش ہے جوکہ اسلام آباد میں رہتے ہیں، میں وہاں سے واپس آگیا اورتفتیشی نے میرا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان بھی قلمبند کیا ،اس سے قبل ،6/9/17کو تفتیشی عمران کے سامنے پیش ہوا تو OrrDignam & Co کا کلرک محمد رشید پیش ہوا اور اس نے کورنگ لیٹر کے ساتھ کچھ دستاویزات پیش کیں جن میں کوئین بنچ کے فیصلے کی نقل اور مظہر رضا خان کے بیان حلفی کی نقول تھیں ،جنہیں ضبطگی میمو میں شامل کیا گیا ،اور میں نے بطور گواہ اس پر دستخط کئے تھے تفتیشی نے اس موقع پرمحمد رشیدکا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کا بیان بھی قلمبند کیا تھا،پی ڈبلیو 9محمد عبدالواحد خان ڈی جی، ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلیکشنز زیرو پوائنٹ نے 5/1/18کو بیان کیا کہ نیب کے دو افسران عمران اور نذیر سلطان ان کے پاس آئے اور انہیں وہ سارا مواد دکھایا جوکہ میں نے ہی انہیں بھجوایا تھا اور میں نے اس کی تصدیق کی ، اس مواد میں اول ،ہمارا 26/12/17کا فارورڈنگ لیٹر اور حسن نواز کے ایکسپریس نیوز کو دیئے گئے انٹرو یو کی سی ڈی اور متن شامل تھا ، دوئم 28/12/17کا لیٹر اور پروگرام کل تک کی سی ڈی شامل تھی ، سوئم 29/12/17کے لیٹر کے ساتھ حسن نواز اور حسین نواز کے کیپیٹل ٹالک اور لیکن نامی پروگراموں میں دیئے گئے انٹر ویوز کی سی ڈی اور اس کا متن شامل تھا اور یہ نیب لاہور کو بھجوائے گئے تھے،چہارم 30/12/17کا فارورڈنگ لیٹر جس کے ہمراہ میاں نواز شریف کے قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی سے خطاب کی دو سی ڈیز شامل تھیں ،یہ بھی نیب لاہور کو بھجوایا گیا تھا،پنجم ،28/12/17کے دو لیٹر جوکہ میرے ڈائریکٹر عاصم کچھی نے جیو نیوز اور پی ٹی وی کو پروگراموں کے ویڈیو کلپ اور متن کے ھوالے سے بھجوائے تھے ،شامل تھے ،ششم 27/12/17کا لیٹر جوکہ ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ نے بی بی سی کے بیورو چیف ہارون الرشید کو بھجوایا تھا ،ہفتم ، نواز شریف کا قوم سے خطاب کا چار صفحات پر مشتمل متن ،ہشتم، نواز شریف کے قومی اسمبلی سے خطاب کا متن جوکہ صفحہ نمبر 31تا 36پر ہے ،جس پر وکیل صفائی جے اعتراج کیا تھا کہ یہ آئین کے آرٹیکل 66کے تحت عدالت میں پیش نہیں کیا جاسکتا ہے ،تاہم اسے بھی اوور رول کردیا گیا تھا ۔
9/پروگرام کل تک ایکسپریس نیوز میں حسین نواز شریف کا انٹرویو کا ترجمہ جو 22صفحات پر مشتمل اور کیس فائل میں شامل ہے پر اعتراض تھا کہ حسین نواز شریف کبھی اس کیس میں عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے نہ ہی اس میں کیس میں گواہ ہیں۔اس پر نیب پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا کہ حسین نواز اس کیس میں اشتہاری ہیں اور وکیل صفائی نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔10/کل تک پروگرام کی سی ڈی کے علاوہ قوم سے خطاب اور قومی اسمبیل میں کی گئی تقریر کی سی ڈیز میں کیس فائل کا حصہ ہیں۔جس پر ائین کے آرٹیکل66کے تحت اعتراض تھا پر نیب پراسیکیوٹر کا موقف تھا کہ یہ قابل قبول شواہد ہیں۔تمام چیزیں تفتیشی مقدمہ محمد عمران ڈپٹی ڈائریکٹر نیب لاہور سے لی گئیں اور اس موقع پر محمد نذیر سلطان اور میں نے دستخط کئے تھے۔گواہ پی ڈبلیو 10/سید مبشر توقیر شاہ ڈائریکٹر ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ ڈویژن وازارت اطلاعات و نشریات 5جنوری 2018کو ایوان فیلڈ ریفرنس میں شامل تفتیش ہوئےاور تفتیشی کی طرف سے دکھائے گئی دستاویزات اور آرٹیکلز کی تصدیق کی۔گواہ 11/وقاص احمد سینئر کوارڈینٹر جیو نیوز اسلام آباد آفس نے بتایا کہ 8جنوری2018کو نیب کی طرف سے ایک لیٹر موصو ل ہوا جس میں کیپیٹل ٹالک اور لیکن پروگراموں کے بارے معلومات مانگی گئیں تھیں۔انہوں نے شامل تفتیش ہوکر پروگراموں کی ڈی وی ڈی اور ٹرانسکرائب مواد کی تصدیق کی۔کیپیٹل ٹالک پروگرام کے ٹرانسکرائب صفحات13اور لیکت پروگرام کے دوصفحات کیس فائل کے ساتھ منسلک ہیں۔گواہ12 /زاور منظور اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیب لاہور جھنوںعبوری ریفرنس میں بیان دیا تھا۔ سپلیمنٹری ریفرنس میں بیان کے دس جنوری کو تحقیقات کیلئے پیش ہوئے۔ان کی موجودگی میں جیو کے نمائندے وقاص احمد نے ریکارڈ جمع کرایا۔گواہ گیارہ محمد سلطان نذیر ڈپٹی ڈائریکٹر نیب لاہور نے بتایا کہ پانچ جنوری کوعبدالوحید خان ڈی جی ڈائریکٹر ایکٹوانک میڈیا اینڈ پبلیکیشنز نے تین سی ڈیز پیش کیں جو تفتیشی نے قبضہ میں لیں اور کیس فائل کا حصہ بنایا۔اسی طرح تفتیشی نے تین خطوط بھی ریکارڈ کا حصہ بنائے۔سید مبشر توقیر شاہ نے ایک سی ڈی اور بارہ صفحات ٹرانسکرائب مواد کے پیش کئے جو ریکارڈ کا حصہ بنائے گے۔گواہ14/رابرٹ ولیم ریڈلے جو فرانزک اینڈ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ ہیں اور 1976سے اس فیلڈ میں کام کررہے ہیں۔جن کی خدمات کوئسٹ سولیسیٹر نے حاصل کیں تھیں۔انہوں نےدونوں ٹرسٹ ڈیکلریشن،جرمی فری مین کے دستخط سمیت دیگر دستاویزات جو کوئسٹ سولیسیٹر نے فراہم کیں تھیں کاجائزہ لے کر رپورٹ تیار کی تھی۔اس کے مطابق دونوں ڈیکلریشن کے دوسرے اور تیسرے صفحات کسی اور دستاویزات کی کاپی ہیں۔جن کو ری پروڈوس کیا گیا ہے۔اسی طرح دونوں ڈیکلریشن کے صفحات نمبر دو اور تین میں سے یہ بتانا مشکل ہے کہ اصل کونسے ہیں۔اسی طرح دستخطوں کے ساتھ تاریخ بظاہر2006لگ رہی ہے۔جس کو اوور رائیٹ کرکے2004کرنے کی کوشش نظر آتی ہے۔6جولائی 2017کو دو رپورٹیں لیبارٹری کےسیل بند لفافے میں موصول کیں۔جس کی سولیسیٹر نے تصدیق کی۔کہ یہ اصل کی کاپی ہیں۔مچل لنڈسلے نوٹوی پبلک نے بھی تصدیق کی۔یہ دونوں دستاویزات نیسکول اور نیلسن اور کومبر ڈیکلیرشن کی کاپیاں تھیں۔جو ریکارڈ کا حصہ ہیں۔رابرٹ ولیم ریڈلے جو فرانزک اینڈ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ نے پہلے دیکھی گئی ڈیکلریشن کی کاپیوں اور بعد میں لیارٹری سے موصول شدہ کاپیوں کے جائزہ کے بعد سامنے آیا کہ گومبر اور نیس کول و نیلسن ڈیکلریشن کی کاپیوں ے دستخط والے صفحات مختلف پائے گے۔دستاویزات میں استعمال ہونے والا فائونٹ کیلبری جو ابتداء میں ونڈو وسٹا پروگرام میں تھا۔جو31جنوری2017تک کمرشل بنیادوں پر دستیاب نہیں تھا۔رابرٹ ولیم ریڈلے جو فرانزک اینڈ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ نے رائے دی کہ لگتا ہے کہ دستاویزات 31جولائی2017کے بعد تیار کی گئیں ہیں۔ان کا بیان15دسمبر2017کو ریکارڈ کیا گیا۔
استغاثہ کے گواہ نمبر پندرہ اختر ریاض راجہ کوئسٹ سولسٹر لندن نے بتایا کہ مذکورہ لافرم جو 1994میں قائم ہوئی جے آئی ٹی نے بارہ مئی 2017کو اس فرم کی قانونی خدمات حاصل کیں، کوئسٹ سولسٹر کی خدمات سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرسماعت متعدد پٹیشنز کیلئے لی گئیں وہ پٹیشنز جو سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کیخلاف زیرسماعت تھیں، اختر ریاض راجہ نے جے آئی ٹی کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں زیرسماعت مقدمات کے حوالے سے کاغذات کی نقول حاصل کیں ان دستاویزات میں اسے ایک برطانوی سولسٹر فرم فری مین باکس کا پانچ جنوری 2017کا ایک خط ملا مذکورہ خط سولسٹر جیریمی فری مین نے لکھا تھا اس خط میں دو ٹرسٹ ڈیکلریشنز کا حوالہ تھا ایک ٹرسٹ ڈیکلریشن نیسکول اور نیلسن نامی آف شور کمپنی جبکہ دوسرا کومبر گروپ کے حوالے سے تھا، فری مین نے پانچ جنوری 2017کے خط میں لکھا کہ حسین نواز شریف چار فروری 2006کو اس کے دفتر آیا اور مذکورہ ڈیکلریشن پر میری موجودگی میں دستخط کئے جن پر میں نے بطور گواہ دستخط بھی کئے، اس موقع پر وکیل صفائی نے اعتراض اٹھایا کہ یہ چیز سنی سنائی بات کے زمرے میں آتی ہے کیونکہ فری مین اس عدالت کے سامنے کبھی بطور گواہ پیش نہیں ہوا (اعتراض مسترد، توجیہہ دلائل میں بیان کی گئی ہے) فری مین نے تصدیق کی کہ کوئسٹ سولسٹر کی طرف سے بھجوائی جانے والی ٹرسٹ ڈیکلریشن کی نقل وہی ہے جس پر اس نے دستخط کئے تھے، مذکورہ بالا نقل پر اعتراض اٹھایا گیا کہ یہ دستاویز اصل کی نقل ہے اور قانون شہادت کے آرٹیکل 8کے تحت مصدقہ بھی نہیں (اعتراض مسترد، توجیہہ دلائل میں بیان کی گئی ہے) اختر ریاض راجہ کو دونوں ڈیکلریشن کاغذات کے پلندے میں سے ملے جن کا اس نے بغور جائزہ لیا اور اسی اثناء میں جے آئی ٹی بھی ان دستاویزات کا جائزہ لے رہی تھی، اختر ریاض راجہ نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیکلریشن میں بہت ساری غلطیاں تھیں اور یہ ڈیکلریشن جعل سازی لگتے ہیں، وکیل صفائی نے اعتراض اٹھایا کہ یہ گواہ کی رائے ہے جو بطور شہادت قابل قبول نہیں جس پر گواہ نے کہا کہ جعل سازی اور غلطیاں اتنی زیادہ تھیں جیساکہ یہ کسی کاغذ کا (فرینکسٹائن ورژن) ہو، جب اختر ریاض راجہ نے یہ فرینکسٹائن جعل سازی دریافت کرلی تو جے آئی ٹی نے اس سے کہا کہ وہ اس کی تصدیق کیلئے کسی ماہر کی خدمات حاصل کریں، انہوںنے کہا کہ کوئی بھی عام آدمی ان کاغذات کو دیکھ کر جعلی ہونے بارے تصدیق کر سکتا ہے لیکن اس کیلئے کسی ماہر کی رائے بھی ضروری ہے، اختر ریاض راجہ نے پہلے ٹرسٹ ڈیکلریشن کے حوالے سے فری مین باکس نامی قانونی فرم کے وکیل جیریمی فری مین کو 27جون 2017کو ایک خط لکھا مذکورہ خط اختر ریاض راجہ کو کیمرے پر دکھایا گیا جب وہ بذریعہ ویڈیو لنک اپنی شہادت قلمبند کروا رہے تھے، لیکن اس خط کے ساتھ جیریمی فری مین کا خط بھی لف تھا اور دونوں ٹرسٹ ڈیکلریشن بھی ساتھ تھیں، صفحہ نمبر 106سے لیکر 111تک کی منسلکہ دستاویزات انہی دستاویزات کی نقول معلوم ہوتی ہیں جو اس کے خط کے ساتھ لف تھیں، اختر ریاض نے جیریمی فری مین کو مذکورہ خط بذریعہ ای میل بھجوایا جس کا جواب نہ ملنے کی صورت میں اس نے یہ خط کسی کے ہاتھ بھجوایا اس شخص کے پاس 27جون 2017کی اس ای میل کی کاپی بھی موجود ہے، 29جون 2017کو اختر راجہ کو جیریمی فری مین کی ای میل موصول ہوئی جیریمی فری مین نے اپنی ای میل میں بیان کیا کہ حسین نواز شریف اصل ٹرسٹ ڈیکلریشن کی دستاویزات کے ساتھ اس کے دفتر آیا تھا اور یہ وہی دستاویزات ہیں جو اختر راجہ نے 27جون 2017کے خط کے ساتھ منسلک کی تھیں ان دستاویزات کی نقل والیم چار کے صفحہ 89پر موجود ہیں، جیریمی فری مین نے اپنے خط میں حسین نواز شریف اور ایک گواہ وقار کے دستخطوں کی نصدیق کی اس نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ پانچ جنوری 2017کے خط کے مندرجات درست تھے، 29جون 2017کو جب جے آئی ٹی نے اختر راجہ کو کسی ماہر کی خدمات کے حصول کیلئے مجاز مقرر کیا تو اسی دن اس نے رابرٹ ریڈلے سے رابطہ کیا اور اختر راجہ نے جے آئی ٹی کو ریڈلے کی خدمات لینے کی سفارش بھی کی اس نے ریڈلے کی قابلیت اور بطور ماہر گواہ موزونیت کے حوالے سے چھان بین کی تھی، اختر ریاض اور ریڈلے کے درمیان 30جون 2017تک بات چیت ہوتی رہی اس نے ریڈلے کو نیلسن، نیسکول اور کومبر کمپنیوں کی ڈیکلریشن کی نقول فراہم کیں جے آئی ٹی سے متعین ہدایات لینے کے بعد اختر ریاض نے ریڈلے کو کام کے حوالے سے کچھ ہدایات دیں جن کا ذکر اس نے اپنی چار جولائی 2017کی رپورٹ میں کیا، اس نے جے آئی ٹی کو اپنی پہلی رپورٹ چار جولائی 2017کو فراہم کی، پانچ جولائی 2017کو جے آئی ٹی نے اسے بتایا کہ وہ اسے ڈیکلریشن کے دو ورژن مزید بھجوا رہے ہیں مذکورہ ورژن چھ جولائی 2017کو لندن پہنچے یہ ورژن ہیتھرو ایئرپورٹ سے براہ راست مسٹر ریڈلے کی لیبارٹری تک پہنچائے گئے جن کا جائزہ لینے کے بعد ریڈلے نے آٹھ جولائی 2017کو دوسری رپورٹ دی دونوں رپورٹس ریڈلے کی لیبارٹری میں سیل کی گئیں اور ان کو پاکستان پہنچایا گیا، جب دونوں رپورٹس اور ڈیکلریشن کا دوسرا سیٹ سیل کر کے پاکستان بھجوایا گیا اس وقت ریڈلے اپنی لیبارٹری میں موجود تھا، اختر راجہ نے التوفیق کمپنی کے حدیبیہ پیپر ملز کے حوالے سے دائر مقدمہ کے بارے میں بھی جے آئی ٹی کی ہدایت پر کمنٹری لکھی مذکورہ کمنٹری میں جسٹس کوئین بینچ ڈویژن لندن کے 1999کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں شہباز شریف اور شریف فیملی کے دو اور افراد مدعاعلیہہ تھے، پانچ نومبر 1999کی اس ججمنٹ میں مدعا علیہان کو دو کروڑ ڈالرز کی ادائیگی کا کہا گیا تھا، اختر ریاض راجہ کی کمنٹری ڈان اخبار میں شائع ایک آرٹیکل پر مبنی ہے، اختر راجہ کا بیان نیب نے قلمبند نہیں کیا، استغاثہ کے گواہ نمبر 16واجہ ضیاء نے اپنے بیان میں بتایا کہ 20اپریل 2017کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے وقت وہ ایف آئی اے میں بطور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل امیگریشن کام کر رہا تھا سپریم کورٹ نے مذکورہ فیصلے کی رو سے ایک جے آئی ٹی بنائی جس کا اس کو سربراہ مقرر کیا گیا، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ جے آئی ٹی کا سربراہ ایک ایسا شخص ہونا چاہئے جس کو وائٹ کالر کرائمز کی تفتیش کا تجربہ ہو، جے آئی ٹی کے دوسرے ممبران قومی احتساب بیورو، سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، سٹیٹ بینک آف پاکستان، آئی ایس آئی اور ایم آئی سے لئے گئے تھے، مذکورہ اداروں کے سربراہان سے کہا گیا کہ وہ اپنے اداروں سے اچھی ساکھ کے حامل افسران تجویز کریں، واجد ضیاء نے بتایا کہ ایف آئی اے سے تین افسران کا نام تجویز کیا گیا جن میں حتمی انتخاب میں ان کا نام بھی شامل تھا، جے آئی ٹی کو ان سوالات کے جوالات تلاش کرنا تھا، گلف سٹیل ملز کس طرح قائم ہوئی، کن وجوہات کی بنا پر اسے فروخت کیا گیا، اس کے ذمہ واجب الادا قرضہ جات کس طرح اتارے گئے اور اس کی فروخت سے حاصل ہونے والا پیسہ کہاں گیا، وہ پیسہ جدہ، قطر اور برطانیہ کیسے پہنچا، حسین نواز اور حسن نواز کے پاس کم عمری میں کیا ایسے ذرائع موجود تھے جن سے وہ لندن میں فلیٹس خرید سکتے، قطری شہزادے حماد بن جاسم بن جابر الثانی کیا ایک حقیقت ہے یا افسانہ۔ قطریوں کے ساتھ شیئرز کس طرح فلیٹس کی صورت میں متشکل ہوئے، نیلسن انٹرپرائزز اور نیسکول لمیٹڈ کا اصل بینی فشل اونر کون ہے، ہل میٹل سٹیبلشمنٹ کس طرح معرض وجود میں آئی، فلیگ شپ انوسٹمنٹ کمپنیز قائم کرنے کیلئے حسن نواز کے پاس پیسے کہاں سے آئے، مذکورہ کمپنیوں کے لئے بنیادی سرمایہ کہاں سے آیا اور کس طرح اس نے کروڑوں روپے کی رقومات نواز شریف کو بطور تحفہ دیں، یہ اصل سوال ہیں جن کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ جے آئی ٹی اس کیس کی تحقیقات اور شواہد بھی تلاش کرے کہ آیا نواز شریف یا اس کے زیرکفالت بے نامی دار افراد کے پاس ایسے اثاثے موجود ہیں جو ان کے معلوم ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے، سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس سے متعلقہ مواد اور شواہد کا جائزہ بھی لے اگر ایسا کوئی مواد پہلے سے نیب یا ایف آئی اے کے پاس موجود ہے، جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ لندن فلیٹس کن ذرائع سے حاصل کئے گئے، واجد ضیاء نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی مصدقہ نقل پیش کی، سپریم کورٹ نے پانچ 2017کو جے آئی ٹی تشکیل دی جس میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گریڈ 21کے افسر عامر عزیز، سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے بلال رسول، قومی احتساب بیورو سے عرفان نعیم منگی، آئی ایس آئی سے بریگیڈیئر نعمان سعید اور ایم آئی سے بریگیڈیئر کامران خورشید شامل تھے، جبکہ واجد ضیاء اس کی سربراہی کر رہے تھے، سپریم کورٹ نے تحقیقات کے ضمن میں جے آئی ٹی کو مخصوص اختیارات بھی دیئے، جے آئی ٹی نے اپنا کام آٹھ مئی 2017کو شروع کیا اور دس والیم پر مشتمل رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی، جے آئی ٹی نے وہ تمام دستاویزات اکٹھی کیں جو سپریم کورٹ میں درخواست گزاروں نے پٹیشن نمبر 29کے ساتھ لف کی تھیں، جے آئی ٹی نے مدعا علیہ کے بیانات اور ان کی طرف سے جمع کروائی گئی دستاویزات بھی جمع کیں، جے آئی ٹی نے مختلف اداروں جیساکہ سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، ایف آئی اے، نیب، مختلف بینکس اور دیگر اداروں سے بھی مواد جمع کیا، دوران تفتیش جے آئی ٹی نے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ اس کیس میں بہت ساری دستاویزات اور واقعات کا تعلق بیرون ممالک سے ہے، بیرون ممالک سے خط وکتابت کیلئے جے آئی ٹی کے سربراہ کو نیب آرڈیننس کی سیکشن 21کے اختیارات تفویض کئے گئے اس کے بعد جے آئی ٹی نے بیرون ممالک سے خط وکتابت کا آغاز کیا جن میں برطانیہ، برٹش ورژن آئی لینڈ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک شامل تھے، جے آئی ٹی نے ایسے افراد کے بیانات قلمبند کرنے شروع کئے جو ان واقعات کے ساتھ شناسائی رکھتے تھے جن میں نواز شریف، شہباز شریف، جے آئی ٹی کا والیم IIگواہوں کے بیانات اورتجزیوں پرمبنی ہے۔ گواہوں کے بیانات، سمن اور گواہوں کی طرف سے پیش کئے گئے مواد وغیرہ ایک الگ فولڈر میں رکھے گئے اور سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو پیش کئے گئے۔ عدالت کے حکم پر انہوں نے والیم نمبر 2,3,4,5,9,9-Aاور 10کے سیٹ سپریم کورٹ سے لاکر پیش کئے۔ آئینی پٹیشن نمبر29اور سی ایم ایز کے جائزے کے بعد جے آئی ٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ سپریم کورٹ کی طرف سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس سے متعلق سپریم کورٹ کی طرف سے اٹھایا گیا سوال درحقیقت ایون فیلڈ اپارٹمنٹس سترہ، سترہ اے، 16 اور 16اے سے متعلق ہے اور پورا کیس کا جواب دہندہ اور اب اس کا کیس کے ملزم نے مختلف سی ایم ایز کے ذریعے دفاع کیا ہے۔ ان اپاٹمنٹس کی ملکیت اور تحویل حوالے سے تفصیلات 15نومبر 2017کو پیش کئے گئے سی ایم اے میں موجود ہیں جو جواب دہندگان نمبر6، 7اور 8 اب ملزمان مریم صفدر، حسین نواز شریف اور حسن نواز شریف کے ضمنی بیانات پر مشتمل ہے، متذکرہ بالا سی ایم اے میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ گلف سٹیل نام کی فیکٹری ملزم کے والد محمد شریف مرحوم نے 1974 میں قائم کی۔ یہ فیکٹری میاں محمد شفیع مالک کی حیثیت سے چلاتے رہے جبکہ اس کے اصل مالک محمد شریف تھے۔ بیان میں بتایا گیا کہ گلف سٹیل کے 75فیصد شیئرز 21ملین درہم میں فروخت کر کے یہ رقم بی سی آئی بینک کو قرضے کی واپسی کے لئے ادا کردی گئی۔ جس کے بعد ملز کے خریدار عبداللہ علی کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کیا گیا جس کے تحت عبداللہ ایل، ایل مل (سابقہ نام گلف سٹیل) مل کے 75فیصد اور میاں شفیع 25 فیصد شیئرز کے مالک بن گئے۔ 1980میں میاں شفیع نے محمد شریف کی جانب سے یہ 25فیصد شیئرز بھی 12ملین درہم میں عبداللہ ایل کو فروخت کردیئے یہ رقم قطر کے شاہ خاندان کے ساتھ سرمایہ کاری میں لگا دی۔ قطری شاہی خاندان نے متذکرہ بالا اپارٹمنٹس نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کے نام پر خریدے تھے اور ملزم میاں محمد نواز شریف کے بیٹوں نے بنیادی کرائے اور سروسز چارجز کی ادائیگی کے بعد ان اپارٹمنٹس میں رہنا شروع کردیا۔ 2006 میں حسین نواز شریف اور قطری شاہی خاندان (شہزادہ حماد بن جاسم الثانی) کے درمیان بیر سر شیئرز کی منتقلی کے معاہدے کے بعد ان اپارٹمنٹس کی ملکیت تبدیل ہو گئی۔ اور ملزمہ مریم صفدر 2006 میں طے پانے والی ٹرسٹ ڈیڈ کے نتیجے میں حسین نواز شریف کی ٹرسٹی بینی فشری بن گئیں اس سی ایم اے کے ساتھ کئی دستاویز پیش کی گئیں۔ سی ایم اے432بنیادی طور پر گلف سٹیل کی فروخت کی منی ٹریل کی تفصیلات بیان کرتا ہے جو پہلے ہی متذکرہ سی ایم اے اور دیگر دستاویزات میں فراہم کی گئی ہیں۔ان دستاویزات اور سی ایم اے میں قطر کے شاہی خاندان کے ساتھ سرمایہ کاری، بیرسر شیئرز کے ذریعے ملکیت کی منتقلی اور منی ٹریل کی منتقلی میں وقفوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ یہ سی ایم اے جواب دہندگان نمبر7اور 8حسین اور حسن نواز نے26جنوری 1917 کو فراہم کیا تھا۔ سی ایم اے نمبر7531والیم نمبر 7531/2017کے صفحات ایک سے 7تک ان کے اعتراضات کے ساتھ موجود تھے۔ پراسیکیوٹر نے آرٹیکل (3)85قانون شہادت آرٹیکل 88مجریہ 1984 کے تحت یہ اعتراضات رد کر دیئے گواہ نے دستاویزات کا جائزہ اور مطالعہ کیا۔ (اعتراضات رد کرنے کی وجہ ادھر بیان کی گئی ہے) انہوں نے 12نومبر 2016کو متذکرہ بالا سی ایم اے کے تحت طارق شفیع کے بیان کی تصدیق شدہ کاپی پیش کی جس کی فوٹو کاپی والیم سی ایم اے نمبر7531 کے صفحات 59 سے 62تک موجود ہے۔ (انہوں نے یہ تفصیلات بھی اعتراضات کے ساتھ پیش کی ہیں جو پراسیکیوٹر نے رد کر دی ہیں) طارق شفیع کا بیان حلفی بھی صفحہ 20سے 21تک موجود ہے۔ (انہوں نے بھی یہ بیان اعتراضات کے ساتھ پیش کیا ہے جسے پراسیکیوٹر نے رد کردیا) ان دو بیان حلفی میں گلف سٹیل کے قیام 1978اور 1980 میں اس کی فروخت،1980 میں اہل سٹیل کی فروخت اور12ملین درہم کی قطری خاندان کو منتقلی کی تفصیلات درج ہیں جے آئی ٹی نے ان دو بیان حلفی کا اپنی رپورٹ میں تفصیل سے ذکر کیا ہے (یہ رپورٹ گلف سٹیل ملز والیم 3کے صفحہ 5 سے21تک موجود ہے) جس میں جے ائی ٹی نے تضادات اور بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی ہے اور طارق شفیع کی جے آئی ٹی کے روبرو تحقیقات کے دوران بھی یہی تضادات اور بے قاعدگیاں سامنے آئیں۔سپریم کورٹ نے اپنے سوالات سے ایک میں جے آئی ٹی سے خاص طور پر یہ سوال کیا کہ گلف سٹیل کیسے قائم ہوئی۔ اس سوال کا جواب بیان حلفی کے پیرا7میں موجود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ سٹیل مل زیرو ایکیوٹی اور 100فیصد قرضے کے ساتھ قائم کی گئی جبکہ متذکرہ بیان حلفی کا پیرا صاف طور پر کہتا ہے کہ ایک اور شخص محمد حسین جو کہ برطانوی باشندہ ہے اور یو کے میں رہتا ہے اس کا ایک پارٹنر ہے اور یہ کبھی بھی گلف سٹیل کی سرگرمیوں کا حصہ نہیں رہا طارق شفیع اور دیگر گواہ اس کی وضاحت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ اس کاروبار میں کوئی اور ایکیویٹی نہیں تھی اوروہ اس وقت اس کے ورکنگ پارٹنر نہیں ہیں۔اور یہ کہ گلف سٹیل ملز کے قیام میں ان کا کیا کردار تھا طارق شفیع اور گواہ حسین سے جے آئی ٹی نے کہا کہ وہ اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے بینک قرضہ جیسی ٹھوس دستاویزات پیش کریں جو وہ نہ کر سکے۔ انہوں نے شیئرز کی فروخت کے معاہدے کی تصدیق شدہ کاپیاں پیش کیں جن کی فوٹو کاپیاں والیم کے صفحات 20سے 39 تک موجود ہیں۔ سی ایم اے167 تین فریقوں محمد شفیع، اہلی اور بی سی سی آئی کے مابین ہے جس کے مطابق فروخت سے حاصل ہونے والے تمام 21ملین درہم بی سی سی آئی کو جائیں گے۔کمپنی کے کل36ملین درہم کے تقریبا شیئرز تھے اور بی سی سی آئی کو ادائیگی کے بعد بھی گلف سٹیل کے ذمہ 14ملین درہم واجب الادا تھے۔ یہ ادائیگی طارق شفیع کے ذمہ تھی جوملز چلا رہے تھے جس کے مالک محمد شریف تھے، ان میں6 ملین درہم بی سی سی آئی کے واجب الادا تھے جبکہ دیگر پانی اور بجلی کے چارجز کے واجبات کی شکل میں ادا کرنے تھے۔1978 میں طارق شفیع اور عبداللہ اہلی کے درمیان ہونیوالے پارٹنر شپ معاہدے کے مطابق 25 فیصد شیئر کے مالک طارق شفیع اور بقیہ 75 فیصد شیئر کے مالک عبداللہ اہلی تھے اس معاہدے کی فوٹو کاپیاں والیم سی ایم اے 7531کے صفحات40 سے 51 پر موجود ہیں جبکہ14اپریل 180کو ہونیوالے ایک اور معاہدے کی کاپیاں صفحات52 سے لیکر 55 تک موجود ہیں، یہ معاہدہ طارق شفیع کے نمائندے شہباز شریف اور محمد عبداللہ اہلی کے درمیان طے پایا تھا، جب اس بات کی تصدیق مانگی گئی تو شہباز شریف اور طارق شفیع دونوں نے اس دستاویز پر دستخط کرنے کی صحت سے انکار کیا۔14اپریل1980کو ہونیوالے اس معاہدے میں اس بات کے واضح وضاحت کی گئی تھی کہ بنک گارنٹی عبدالرحمٰن اہلی فراہم کرینگے۔
(1) سی ایم اے نمبر432
(2) شیئر سیل
(3) لیٹر آف کریڈٹ کی فوٹو کاپی سی ایم اے432کے صفحات36 سے39 پر موجود ہیں۔
(4) حماد بن جاسم بن جابر الثانی کے خطہ کی کاپی سی ایم اے نمبر7638 پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
(5) شیخ حماد بن جاسم کا 22 دسمبر 2016کو لکھے گئے خطہ کی کاپی میں سی ایم اے432کے صفحہ نمبر22پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
14۔ شیخ حماد بن جاسم کی طرف سے لکھے گئے خط کی فوٹو کاپی دیکھی اور واپس کی گئی، مذکورہ بالا خط وزارت امور خارجہ کو بھیجا گیا اور اس ضمن میں خط سیکرٹری امور خارجہ کو لکھا گیا (صفحہ 67)EX. PW-16-20، (آفس کاپی دیکھ کر واپس کی گئی)۔
15۔ ڈائریکٹر ایس ایس پی آفاق احمد کی طرف سے لکھے گئے خط کی فوٹو کاپی ایک بند لفافے میں موصول ہوئی یہ خط بھی دیکھ کر واپس کیا گیا۔
انہوں نے جو خط پیش کیا وہ کھلی ہوئی حالت میں تھا جبکہ فوٹو کاپی جو خط کی لی گئی وہ بھی پیش کی گئی صفحہ نمبر Ex.Pw 4622-84 (یہ بھی دیکھ کر واپس کی گئی) ایک بند لفافے کے پہلے صفحے کی فوٹو کاپی جو صفحہ (92) Ex.pw-16/23 ہے وہ بھی دیکھ کر واپس کی گئی۔ جے آئی ٹی کے ممبر کی موجودگی میں ایک تصدیق شدہ میمو کی کاپی حوالے کی گئی۔ اس میمو کے صفحہ 85 والیم نمبر5 کا صفحہ Ex.pw 16-24 ہے، یہ بھی دیکھ کر واپس کی گئی۔
ایک خط جو مورخہ 23-6-207 کو لکھا گیا جس میں جے آئی ٹی چیئرمین کو آفاق احمد کی طرف سے مخاطب کیا گیا بھی اس کے ساتھ منسلک ہے، جوکہ ایک ڈیلیوری رپورٹ فیکس ٹرانسمیشن کی ہے اور اس کے ساتھ کوریئرر کی رسید بھی منسلک ہے، یہ بھی اسی طرح EX.PW 1625 دیکھا گیا، فوٹو کاپی جو عزت مآب شیخ حماد بن جاسم کو مورخہ22-6-2017 کو بھیجی گئی ان کا حوالہ (Page 74)EX.PW-16/26 ہے (اس کی دفتری نقل بھی دیکھ کر واپس کی گئی)۔ ایک فوٹو کاپی فیکس رپورٹ کی ہمارے دفتر نے موصول کی جوکہ 22-6-2017 کو لکھے گئے خط کی وصولی کی بابت تھی، جوکہ منسلکہ حوالہ EX.PW-16/25 ہے یہ فیکس رپورٹ EX.PW-1627 (صفحہ 77) ہے، یہ دراصل فوٹو کاپی کی فوٹو کاپی تھی جو تصدیق شدہ بھی نہیں تھی اس میں نہ تو گواہوں کے پتے تھے نہ وصول کنندہ کے متعلقہ کاغذات موجود تھے۔
ڈی ای ایل کی فوٹو کاپی جو درحقیقت کاغذات کی ٹرانسمیشن سے متعلق تھی 22-6-17 بھی اس طرح دیکھی گئی اس کا حوالہ نمبر PW-16-B اور صفحہ نمبر73 ہے۔
آفاق احمد کے خط کی نقل جس میں جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کو مخاطب کیا گیا سربمہر لفافے میں دوحہ میں واقع سفارتخانے کے ذریعے وصول ہوئی، جس میں تصدیق کی گئی کہ خط مذکورہ عبدالحماد عبدالراشد جو سیکرٹری ہیں شیخ حماد بن جاسم کے ان کو پہنچا دیا گیا ہے، اس طرح اس کا نمبر EX.PW 16/28 (صفحہ نمبر 69) ہے اسے بھی دیکھ کر واپس کر دیا گیا۔
فوٹو کاپی جو حماد بن جاسم کے خط کی تھی جس میں جے آئی ٹی سربراہ کو مخاطب کیا گیا، اس کا حوالہ EX.PW 16/29 اور صفحہ 87 ہے اسے بھی دیکھ کر واپس کیا گیا۔
دوحہ میں واقع پاکستانی سفارتخانے کے سفارت کار شہزاد کے خط کی کاپی جس میں ظاہر کیا گیا کہ منسلکہ خط عبدالحماد عبدالراشد کو پہنچا دیا گیا وہ بھی اسی طرح درج ہوا جس کا حوالہ (16/C) PW صفحہ 86 ہے۔
اسی طرح سفارتکار شہزاد احمد کی طرف سے وزارت خارجہ امور میں سلمان شریف کو لکھے گئے خط کا حوالہ نمبر EX.PW-130 اور صفحہ نمبر 88 ہے۔
شیخ حماد بن جاسم الثانی کی طرف سے جے آئی کو لکھے گئے خط کا حوالہ نمبر EX.PW 16/31 صفحہ نمبر 89 ہے، یہ خط ایک اورخط نمبر EX.PW/1630 سے منسلک تھا۔
چیئرمین جے آئی ٹی واجد ضیاء کے نام لکھے گئے خط کا حوالہ نمبر EX.PW 16/32 صفحہ 78 ہے جو آفاق احمد ڈائریکٹر ایس ایس پی نے وزارت خارجہ کے ذریعے لکھا اور ہمارے دوحہ میں واقع سفارت خانے کے ذریعے وصول ہوا۔ یہ بھی سربمہر خط تھا۔
ایک خط سربراہ جے آئی ٹی نے مورخہ 4-7-2017 کو شیخ حماد بن جاسم کو لکھا اس کا حوالہ نمبر EX.PW 1633 اور صفحہ (82سے 79) ہے یہ خط بھی دیکھ کر واپس کر دیا گیا۔ یہ خط وزارت خارجہ امور کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔
شیخ حماد بن جاسم الثانی کے ایک اور لکھے گئے خط مورخہ 6-7-2017 کی نقل بھی برائے ملاحظہ ہمراہ ریکارڈ ہے جس میں حماد بن جاسم نے جے آئی ٹی کو مخاطب کیا اس کا حوالہ PW-16D اور صفحہ نمبر 93 ہے یہ خط کورنگ لیٹر کے طور پر موصول ہوا اور ایک ای میل بھی اس کورنگ لیٹر کے ساتھ ملائی گئی۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے معزز رجسٹرار کی طرف سے لکھا گیا اصل خط بھی پیش کیا جو کہ ایک سربمہر لفافے میں دیا گیا تھا۔ وہ لفافہ عدالت میں کھولا گیا۔ اس طرح ایک کھلا لفافہ، کورنگ لیٹر اور ایک اور لفافہ عدالتی کسٹڈی میں محفوظ رکھا گیا، جسے معزز عدالت کے حکم کے مطابق محفوظ رکھا گیا، اس کا اعلان 28-7-2017 کو کہا گیا۔ یہ لفافہ ایک ٹیپ کے ساتھ بند کیا گیا، یہ لفافہ ایک عربی اور انگلش میں لکھے گئے خط کو لئے ہوئے ہے، جوکہ 16D کے گواہوں جو انہوں نے دفتر خارجہ کے ذریعے خطوط وصول کئے ان سے مختلف ہے، اور یہ خط انگریزی متن والا ہے۔ تاہم جب یہ خط دیکھا گیا تو وہ 16-D سے مختلف تھا۔
گواہوں نے بھی کہا کہ یہ خط اس خط کی طرح ہے جو فائل میں موجود ہے اس موقع پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ ریکارڈ مرتب کرنے کیلئے ایک درخواست فائل کریں گے۔ اس موقع پر تمام لفافے دیکھ کر واپس کر دیئے گئے۔ اسی طرح التوفیق کمپنی اور حدیبیہ پیپر ملز جو کہ حوالہ نمبر PW-16F ہے پر اعتراض ہوا کہ مذکورہ کاغذات شواہد کے مطابق نہیںیہ سب صفحہ 189 سے 191 تک ہے۔ اسی طرح دوسرے ریکارڈ کی نقول منسلکہ صفحہ 211، حدیبیہ پیپرز کے ریکارڈ کی نقول منسلک ہوئیں جن کا نمبر CMA.432 بطور ریفرنس دستیاب ہے اس کی تصدیق شدہ نقول EX.PW 1634 ہیں جن پر یہ اعتراض درج کیا گیا کہ یہ دراصل فوٹو کاپیوں کی فوٹو کاپی ہے یہ تصدیق شدہ بھی نہیں ہیں اس لئے یہ غیر متعلقہ ہیں، اس کے بعد انہوں نے دو تصدیق شدہ نقول فراہم کیں جو ایک آئینی درخواست نمبر 29.2016 کے دی گئیں جو عدالت عظمیٰ میں دی گئی تھی۔ اسی طرح سی ایم اے نمبر 753116 جس کا مزید حوالہ EX.PW 16/37 ہے اور EX.PW/ 1638 ہے پیش کی گئی ہیں، جن پر یہ اعتراض درج کیا گیا مذکورہ تصدیق شدہ کاپیاں ایک کاپی کی فوٹو سٹیٹ ہیں پھر ایک تصدیق شدہ نقل دفتری بھی فراہم کی گئی۔
رجسٹرار کی ایک نقل بابت ایون فیلڈ پیش کی گئی، یہ فوٹو کاپی پہلے سے صفحہ نمبر 73 سے صفحہ نمبر 76 سی ایم اے 7531/16 موجود تھی، اس طرح رجسٹرار کی ایک دفتری نقل مزید بھی پیش کی گئی جو 17 ایون فیلڈ سے ہی متعلق تھی، مذکورہ دستاویزات کا نمبر EX.PW-1640 صفحہ نمبر 77 اور 78 ہے-
مورخہ 317-1995 کے حوالے سے 16-A ایون فیلڈ کی بابت بھی ایک تصدیق شدہ نقل پیش کی گئی۔ مذکورہ نقل میں EXPW-1642 ہے اور صفحہ نمبر81 سے 82 تک موجود ہے اس کا نمبرCMA7531/16 ہے۔ کمبور کمپنی سے متعلق ایک حلف نامہ دیا گیا جس کی نقول پیش کی گئیں جو کہ ملزمان مریم نواز اور حسین نواز کے درمیان تھا جس کا حوالہ EX.PW1643 صفحہ83 سے 86 ہے اس کا حوالہ نمبر بھیCMA7531/16 ہے، اس کی تصدیق شدہ نقول دیکھ کر واپس کر دی گئیں۔
نیسکول اور نیسلسن سے متعلقہ حلف کی نقول مابین ملزمان مریم نواز اور حسین نوازEXPW-1614 صفحہ مبر3 تا6،CMA NO7661/16 پیش کی گئیں، یہ تصدیق شدہ نق