افغان حکومت ٹی ٹی پی اور اس کی ذیلی تنظیموں سے تعلق ختم کرے، منیر اکرم

’جس کے بعد 18 مارچ کو پاکستان نے سرحد کے قریب افغانستان میں واقع دہشت گردوں کے ٹھکانے کو انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن میں نشانہ بنایا تاکہ ہم ایسے حملوں سے اپنی زمین کا دفاع کر سکیں۔ اس حملے میں دہشت گرد مارے گئے، عام شہری نہیں۔‘ انہوں نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ ’اس بات کی تحقیقات کرے کہ ٹی ٹی پی کو جدید اسلحہ اور فنڈنگ ملنے کے ذرائع کیا ہیں، جن میں بیرونی ذرائع بھی شامل ہیں، جو 50 ہزار ٹی ٹی پی جنگجوؤں اور ان کے خاندانوں کو میسر ہیں۔‘ پاکستانی مندوب کے مطابق پاکستان پہلے بھی کہہ چکا ہے کہ افغانستان میں اور افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کا خاتمہ پاکستان اور عالمی برادری کی اولین ترجیح ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستانی مشن کے ایکس اکاؤنٹ پر جاری بیان کے مطابق پاکستانی مندوب نے کہا کہ ’گو کہ پاکستان نے افغانستان کی عبوری انتظامیہ سے رابطہ رکھنے پر زور دیا ہے تاکہ افغانستان کی صورت حال کو معمول پر لایا جا سکے، لیکن بین الاقوامی برادری اور افغانستان کی عبوری حکومت کو اپنے مقاصد کے بارے میں واضح موقف اختیار کرنا ہو گا۔ جب تک ہم یہ نہیں جانتے کہ ہم کیسا مستقبل چاہتے ہیں ہم وہ حاصل نہیں کر سکتے۔‘ منیر اکرم نے سلامتی کونسل پر زور دیا کہ افغانستان کی عبوری انتظامیہ سے مطالبہ کرے کہ وہ ٹی ٹی پی اور اس کی ذیلی تنظیموں سے تعلق ختم کر دے۔ انہیں پاکستان کے خلاف سرحد پار سے حملے کرنے سے روکے۔ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو غیر مسلح کرے اور اس کی قیادت کو پکڑ کر پاکستان کے حوالے کرے۔ پاکستانی مندوب نے افغانستان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عالمی برادری کو افغانستان میں خواتین پر عائد پابندیوں پر تشویش ہے۔ ’یہ پابندیاں عالمی قوانین یا اسلامی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ افغانستان کی عبوری انتظامیہ سے توقع ہے کہ وہ خواتین اور بچیوں کو تعلیم، کام کرنے اور ان کے انسانی حقوق کی فراہمی یقینی بنائے گی۔