26ویں آئینی ترامیم کا بل سینیٹ میں پیش
26ویں آئینی ترامیم کی منظوری کیلئے سینیٹ کا اجلاس شروع ہو گیا ۔ چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں، جبکہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26ویں آئینی ترامیم کا بل سینیٹ میں پیش کردیا۔ سینیٹ اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ آئینی ترامیمی بل پراپوزیشن سمیت تمام جماعتوں سے مشاورت کی گئی ۔ ایوان میں وقفہ سوالات اورمعمول کا ایجنڈا معطل کرنےکی تحریک منظور کرلی گئی، معمول کا ایجنڈا معطل کرنے کی تحریک اسحاق ڈار نے پیش کی۔ سینیٹ اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ آئینی ترامیمی بل پراپوزیشن سمیت تمام جماعتوں سے مشاورت کی گئی ،19ویں آئینی ترمیم عجلت میں منظورکی گئی جس نےآئین کےتوازن کوبگاڑدیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ14سال میں اعلیٰ عدلیہ میں ججزکی تقرری ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنی رہی، پاکستان بارکونسل سمیت وکلا کی تمام تنظیموں نےججزتقرری کےعمل پرنظرثانی کا مطالبہ کیا، آئین کےآرٹیکل175اے میں متعدد ترامیم کرنےکا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ کوشش کی ہےاعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کو شفاف بنایا جائے، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان چیف جسٹس کی سربراہی میں8 ارکان پر مشتمل ہوگا، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کےارکان میں4 سینئر ججزاور4پارلیمان کے ارکان شامل ہوں گے۔ اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی کمپوزیشن میں تجویز کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے ساتھ آئینی عدالت کے جج بھی اس کے رکن ہوں گے، کوشش کی ہے18ویں آئینی ترمیم کواس کی اصل روح کےمطابق بحال کیا جائے۔ اعظم تارڑ نے کہا کہ ججز کی تقرری کیلئے قائم کمیٹی میں تمام جماعتوں کی نمائندگی ہو گی، کابینہ نے جے یوآئی کی ترامیم کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پروپیگنڈا کیا جارہا تھا کہ آئینی ترامیم موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ضمانت میں توسیع کیلئے کی جارہی ہیں ، میں چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سے تین بار ملا، انہوں نے تینوں بار کہا کہ میں توسیع لینے میں دلچسپی نہیں رکھتا ۔ وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججزکی تعنیاتی کےلیےسب مشاورت سےفیصلہ کریں گے، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اعلیٰ عدلیہ کےججزکی کارکردگی کا بھی جائزہ لےسکےگا، چیف جسٹس آف پاکستانی کی تقرری کا مدت تین سال پر مشتمل ہو گئی۔ اعظم تارڑ کا کہنا تھا کہ کمیشن میں ججز کی تقرری کا فیصلہ اکثریتی ووٹ سے ہوگا، پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز میں چیف جسٹس کا نام نامزد کرے گی ،قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے تو سینیٹ کے 4ارکان کمیٹی کے رکن ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ آئینی عدالت کی جگہ آئینی بینچ بنایا جارہا ہے، آئینی عدالت کا قیام میثاق جمہوریت کا ادھورہ ایجنڈا ہے ، آئینی بینچ کم ازکم 5 ججز پر مشتمل ہوگا ، آئینی اپیلوں کی سماعت اور فیصلہ بھی آئینی بینچ کرے گا۔ سینیٹ اجلاس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین قوم کو متحد کرنے کیلئے رضا مندی اور اتفاق رائے سے بنایا جاتا ہے ، ترامیم میں اتفاق رائے نہ ہو تو قوم کو نقصان ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 1962کا آئین مسلط کیا گیا جو 8سال بعد ختم ہوگیا ، لوگوں کے بیوی ، بچے اغوا کرکے ووٹ لینے کا عمل اتفاق رائے نہیں ، آج بھی ہمارے کچھ سینیٹرز اور ان کے اہل خانہ اغوا ہیں، ترمیم کے موجودہ عمل میں لوگوں کی رضا مندی شامل نہیں ۔ سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ ہو سکتا ہے آج آپ ترامیمی بل پاس کرالیں ، اس آئینی ترامیم کیلئے لوگوں کو لوٹا بنایا جارہا ہے ، ووٹ کا یہ عمل جرم، جمہوریت اور آئین کے خلاف ہے،چیئرمین سینیٹ ہمارے اراکین کے ووٹ شمار نہ کریں ، ہماری پارٹی کا فیصلہ ہے کہ ہم اس آئینی ترمیم کی حمایت نہیں کریں گے، ایوان میں آئینی مسودہ پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب سے یہ آئینی ترامیم کا عمل شروع ہوا ، اس وقت سے لوگوں کو ترامیم کیلئے خریدا جارہا ہے ، آئینی بل میں بہت سے بنیادی انسانی حقوق کو مسترد کیا گیا۔