سپریم کورٹ میں ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس کی سماعت کے دوران خاور مانیکا عدالت میں رو پڑے
چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کی سربراہی میں ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس کی سماعت ہوئی، ڈی جی نیکٹا خالد داد لک نے انکوائری رپورٹ پیش کی۔ خالد داد لک نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک ایشو وزیراعلی کے کنڈیکٹ کا تھا۔ ڈی پی او کو پیغام دینا تضحیک آمیز تھا۔ یہ کہنا بھی تضحیک آمیز تھا کہہ سب کا نقصان ہو گا۔ احسن جمیل گجر کا رویہ تضحیک آمیز تھا۔ ڈی جی نیکٹا کی جانب سے جمع کروائی جانے والی انکوائری رپورٹ میں بتایا گیا کہ احسن جمیل گجر کے خلاف کاروائی قانونی معاملہ ہے۔ بادی النظر میں سب کا نقصان ہونا مبہم دھمکی ہے۔ احسن جمیل گجر بچوں کے خود ساختہ گارڈین بننے، قانونی رائے کے بعد احسن جمیل کے خلاف کاروائی ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ملاقات کے بعد رضوان گوندل کا تبادلہ ہوا۔ان حالات میں عدالت کیا نتیجہ اخذ کرے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کے پولیس کے کام میں مداخلت کے شواہد نہیں ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ وزیراعلیٰ صوبے کا سربراہ ہے، اعتراض ہے کہ ڈی پی او اور آر پی او کے ساتھ اجنبی شخص نے گفتگو کی۔ وزیر اعلیٰ کے اقدام پر اعتراض نہیں۔ اجنبی شخص نے وزیر اعلیٰ کے سامنے ایسی گفتگو کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آج بڑے احترام سے احسن جمیل کھڑے ہیں، اس دن انکا رعب اور دبدبہ کسی وزیراعلیٰ سے کم نا تھا۔ آج احسن جمیل معافی مانگ رہے ہیں۔ کس بات کی معافی دیں۔ خاور مانیکا دوران سماعت عدالت میں جذباتی ہو کر رو پڑے اور کہا کہ کیا اپنی سابقہ بیوی یا عمران خان سے معاملے پر بات کرتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں جذباتی ہونے یاعدالت میں رونے کی ضرورت نہیں۔ آپ درمیان سے نکل جائیں۔ چیف جسٹس نے خاور مانیکا کو حکم دیا کہ آپ نے کچھ کہنا ہے تو رپورٹ پر جواب دیں۔ عدالت کی جانب سے حکم دیا گیا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب، آئی جی کلیم امام اور احسن جمیل رواں ہفتے جواب داخل کریں۔ چیف جسٹس نے تنبیہہ کی کہ آرٹیکل 62 ون ایف بار بار پڑھیں اور اسے تعویز بنا لیں، مقدمہ کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی گئی۔