پینٹاگون نے امریکی صدر کے بیان سے لاتعلقی کا اعلان کردیا
پینٹاگون نے عالمی پابندیوں کے برخلاف ایرانی ثقافتی و مقدس مقامات کو نشانہ بنانے کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی سے لاتعلقی کا اظہار کردیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے کہا کہ امریکا مسلح تنازعوں کے قوانین کی پاسداری کرے گا اور جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ایران کے ثقافتی مراکز پر حملوں سے لاتعلقی کا اعلان کر رہے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ مسلح تنازعوں کا قانون ہے۔امریکی صدر ڈونلڈر ٹرمپ ایران کی جانب سے کسی بھی کارروائی کی صورت میں ایرانی ثقافتی اور مقدس مقامات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ایسپر کا بیان دیگر دفاعی و فوجی حکام کے تحفظات کی عکاسی کرتا ہے جہاں جنگی قوانین کے تحت انتہائی خطرات کے علاوہ شہریوں پر حملے اور ثقافتی و مقدس مقامات کو نشانہ بنانے پر پابندی ہے۔ٹرمپ نے سب سے پہلے ہفتے کو ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے ایران کے 52 مقامات کو نشانے پر رکھا ہوا ہے، ان میں سے چند ایران اور ایرانی ثقافت کے لیے انتہائی اہم ہیں، اور ان اہداف اور ایران کو انتہائی تیزی اور شدت کے ساتھ نشانہ بنایا جائے گا۔اس ٹوئٹ پر سیکیورٹی و قانونی ماہرین اور ڈیموکریٹک اراکین کانگریس نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا لیکن امریکی صدر اپنے موقف پر ڈٹے رہے البتہ انہوں نے واضح کیا کہ کسی بھی قسم کی کارروائی کی صورت میں عالمی قوانین کو ضرور مدنظر رکھا جائے گا۔پینٹاگون کے پاس ایک عرصے سے ایران کی اہم تنصیبات کی فہرست موجود ہے جس کے بارے میں حکام نے آج تک کوئی بات نہیں کی لیکن اس فہرست میں ممکنہ طور پر اہم فوجی تنصیبات، میزائل سسٹم اور دیگر اہم مقامات شامل ہو سکتے ہیں۔کسی بھی ہدف کو نشانہ بنانے سے قبل فوج اور پینٹاگون ایک طویل عمل سے گزرتے ہیں جس میں اس بات کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ اہداف قانونی ہیں یا نہیں اور تمام ضوابط پورے کرنے کے لیے مقام کو نشانہ بنانے سے قبل صدر کی منظوری لی جاتی ہے۔