تعلقات کی طویل تاریخ، پاکستان ہمارے لیےدوسرا گھر ہے،سعودی وزیر
سعودی وزیر سرمایہ کار خالد بن عبدالعزیز الفالح کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں، دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون انتہائی اہم ہے۔پاکستان کے ساتھ سعودی تعلقات کی طویل تاریخ ہے۔ پاکستان ہمارے لیے دوسرا گھر ہے۔ جمعرات کو پاکستان سعودی بزنس فورم سے خطاب میں سعودی وزیر نے کہا کہ معاشی طور پر پاکستان نے جو گذشتہ دو سال کے قلیل عرصے میں جو کامیابی حاصل کی وہ انتہائی متاثر کن ہے، سعودی عرب پاکستان کا شراکت دار رہے گا تاکہ معاشی طور پر مستحکم ہو۔ انہوں نے کہا کہ پاک سعودی بزنس فورم دونوں ملکوں کی تاجر برادری کے درمیان رابطے کے حوالے سے اہم ہے اور اس دوران 27 مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوں گے۔ سعودی وزیر نے مزید کہا کہ ’پاکستان ہمارے لیے دوسرا گھر ہے۔۔۔ میرے خیال میں پاکستان اور سعودی عرب مل کر لامحدود کام کر سکتے ہیں، اسی طرح سے جیسے ہمارے معاشی اور تاریخی تعلق کی کوئی حد نہیں ہے۔ دونوں ممالک کے قیام سے ہی ہمارے سیاسی تعلقات انتہائی اعلٰی درجے کے ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جو 2019 میں 3 ارب سے بڑھ کر 5.4 ارب ڈالر ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں پاکستانی سرمایہ کاری کو جاری لائسنس میں بھی دگنا اضافہ ہوا ہے۔ وژن 2030 پر بات کرتے ہوئے سعودی وزیر نے کہا کہ اب ہم اگلے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں کہ مستقبل کا سوچیں، اور سعودی عرب کا مستقبل کامیابی، معاشی خوشحالی اور نجی شعبے کو مضبوط کرنا ہے جن میں سے پچاس سے زائد کمپنیاں ہمارے ساتھ یہاں وفد میں بھی موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وژن 2030 کا ایک اہم ہدف یہ بھی ہے کہ معاشی خوشحالی کو اپنے شراکت داروں تک بڑھایا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تعمیراتی منصوبوں کے لیے سعودی عرب دنیا کا سب سے بڑا مقام ہے اور آئندہ سال اس حوالے سے ایوارڈ دینا شروع کریں گے جس میں ہم چاہیں گے کہ پاکستان بھی شامل ہو۔ اس سے قبل پاکستان کے وفاقی وزیر برائے تجارت جام کمال نے فورم سے خطاب میں کہا کہ پاکستانی کمپنیاں سعودی عرب کے وژن 2030 میں اپنا حصہ ڈالنے اور اس سے مستفید ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ جام کمال نے کہا کہ پاکستانی کمپنیاں سعودی عرب کے وژن 2030 میں اپنا حصہ ڈالنے اور اس سے مستفید ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وژن 2030 تبدیلی کا ایجنڈا ہے جو تعمیراتی، آئی ٹی سروسز، ہنرمند افرادی قوت اور زراعت کے شعبے میں مواقع فراہم کرتا ہے۔ وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ وژن 2030 کا مقصد سعودی عرب کی معیشت کو متنوع کرنا ہے اور سیاحت، قابل تجدید توانائی، ٹیکنالوجی، انفراسٹرکچر سمیت دیگر شعبوں کو بھی اس میں شامل کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان خوراک و زراعت، ٹیکسٹائل، فارماسوٹیکل، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور قابل تجدید توانائی کے شعبوں کی سعودی مارکیٹ تک رسائی کو بڑھانا چاہتا ہے۔ جام کمال کا کہنا تھا کہ فی الحال خوراک و زراعت اور ٹیکسٹائل کے شعبے سعودی مارکیٹ میں حاوی ہیں جن کا حجم کل تجارت کا 85 فیصد ہے جبکہ فارماسوٹیکل، تعمیراتی مواد اور سپورٹس مصنوعات کا حجم 10 فیصد ہے جس کو بڑھانے کی صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اپنی برآمدات میں اضافہ کرتے ہوئے سعودی مارکیٹ میں اپنی موجودگی کو بڑھا سکتا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ سعود عرب اور پاکستان کے درمیان تجارتی حجم 5.12 ارب ڈالر ہے، پاکستان کی برآمدات سعودی عرب کی مجموعی تجارت کا صرف 2 فیصد ہیں، جبکہ سعودی عرب سے پاکستان کی درآمدات 4.5 ارب ڈالر پر مشتمل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کو پاکستانی برآمدات میں اضافہ ضروری ہے۔ ۔ تفصیلات کے مطابق باخبر سرکاری ذرائع نے بتایا کہ پٹرول اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمتوں میں بالترتیب 5.50 روپے اور 13 روپے فی لیٹر اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، جس کا اطلاق 16 اکتوبر سے 31 اکتوبر کو ختم ہونے والے اگلے پندرہ دن تک ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو ہفتوں میں پیٹرول کی قیمت میں اوسطاً 2.8 ڈالر فی بیرل اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں تقریباً 7 ڈالر فی بیرل کا اضافہ ہوا ہے۔ حتمی شرح مبادلہ کے حساب کتاب اور موجودہ ٹیکس کی شرحوں پر منحصر ہے، پیٹرول اور ایچ ایس ڈی دونوں کی قیمتوں میں 5.50 سے 13 روپے فی لیٹر اضافے کا امکان ہے۔ حکام نے بتایا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پیٹرول کی اوسط قیمت تقریباً 76 ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر تقریباً 79 ڈالر فی بیرل ہوگئی ہے۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل بھی پچھلے پندرہ دن میں $80.5 سے تقریباً $87.5 فی بیرل پر چلا گیا۔ موجودہ پندرہ دن کے دوران، پیٹرول اور ڈیزل دونوں پر پیٹرول پر درآمدی پریمیم بالترتیب $8.7 اور $5 فی بیرل پر مستحکم رہا۔ دوسری طرف، شرح مبادلہ رینج باؤنڈ رہا۔ ایکس ڈپو پیٹرول کی قیمت فی لیٹر 247.03 روپے اور ڈیزل کی قیمت 246.69 روپے فی لیٹر ہے۔ ریٹیل مارکیٹ میں پیٹرول اور ایچ ایس ڈی دونوں 248 روپے فی لیٹر سے زائد پر فروخت ہوتے ہیں۔ پیٹرول زیادہ تر نجی ٹرانسپورٹ، چھوٹی گاڑیوں، رکشوں اور دو پہیوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس کا براہ راست اثر متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے بجٹ پر پڑتا ہے۔