اسرائیل جنگ بندی پر آمادہ نہ ہوا تو فلسطینی ریاست تسلیم کرلیں گے، برطانوی وزیر اعظم

برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کا کہناہے کہ اسرائیل جنگ بندی پر آمادہ نہ ہوا تو فلسطینی ریاست تسلیم کرلیں گے۔ وزیراعظم کیئر اسٹارمر کی کابینہ نے خطے میں امن کے لیے ایک روڈمیپ کی حمایت پر اتفاق کیا ہے۔ یہ فیصلہ اندرونی اور عوامی دباؤ کے بعد کیا گیا، خاص طور پر فرانس کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کے بعد برطانیہ پر دباؤ بڑھ گیا تھا۔ وزیراعظم نے پیر کے روز اسکاٹ لینڈ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد اپنی کابینہ کو موسم گرما کی چھٹیوں سے واپس بلا کر اس منصوبے کی منظوری لی۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ انہیں برطانیہ کے اس مؤقف پر کوئی اعتراض نہیں، چاہے وہ خود یہ مؤقف نہ اپنائیں۔ اسٹارمر نے وزراء سے کہا کہ غزہ کی بدتر ہوتی صورتحال اور دو ریاستی حل کی امیدیں دم توڑنے کے باعث اب وقت آ گیا ہے کہ برطانیہ ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر اسرائیل نے ستمبر تک غزہ میں جنگ بندی، مغربی کنارے پر قبضہ روکنے اور امن عمل کے آغاز کی سنجیدہ کوششیں نہ کیں تو برطانیہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے قبل فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا۔ وزیراعظم نے زور دیا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان کوئی برابری نہیں، اور حماس کو چاہیے کہ تمام مغویوں کو رہا کرے، اسلحہ چھوڑے، جنگ بندی تسلیم کرے، اور غزہ کے انتظام میں کوئی کردار ادا نہ کرے۔ یہ اقدام فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور جرمن چانسلر فریڈرش مرز کے ساتھ مل کر طویل المدتی امن منصوبے کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ "دی گارڈین" نے گزشتہ ہفتے رپورٹ کیا تھا کہ برطانوی وزیر اعظم اسٹارمر کو اپنی کابینہ کے وزراء سے دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ فلسطین کو فوری طور پر ریاست کے طور پر تسلیم کریں، خاص طور پر غزہ میں بھوکے شہریوں کی ہلاکت پر عالمی غم و غصے کے بعد۔ اطلاعات کے مطابق نائب وزیراعظم انجیلا رینر، وزیر داخلہ یویٹ کوپر اور وزیر صحت ویس اسٹریٹنگ ان وزراء میں شامل ہیں جو چاہتے ہیں کہ حکومت اس معاملے پر قیادت کرے۔