پاکستان گندم کی پیداوار کے لحاظ سے آٹھویں نمبر پر آگیا۔
دنیا بھر میں گندم پیدا کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان گندم کی پیداوار کے لحاظ سے آٹھویں نمبر پر آگیا ہے تاہم کاشتکاروں کو فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کیلئے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ چین، یوکرائن ، انڈیا ، کینیڈا اور امریکہ کی طرح گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کی گنجائش سے فائدہ اٹھایا جاسکے ۔ماہرین زراعت نے بتایاکہ پاکستان میں تقریباً سالانہ 25ملین ٹن گندم پیدا ہوتی ہے جس میں سے تقریباً 19ملین ٹن پنجاب پیدا کرتا ہے جو کہ پا کستان میںگندم کی کل پیداوار کا تقریباً 75فیصد ہے ۔ انہوںنے کہاکہ ہماری اوسط پیداوار تقریباً 28من فی ایکڑ ہے جس میں اضافہ کی بھرپور گنجائش موجود ہے۔ انہوںنے کہا کہ تحقیقاتی ادارہ گندم کے سائنسدان دن رات گندم پر ریسرچ میں مصروف ہیں اور بلاشبہ اس میں خاطر خواہ کامیابیاں بھی حاصل کی ہیںلیکن زرعی سائنسدانوں کو گندم کی پیداوار کے ساتھ اس کی کوالٹی میں بہتری کے لیے ریسرچ پر توجہ دینی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ سائنسدان دنیا میں ڈیورم گندم کے بڑھتے ہوئے استعمال کو مدنظر رکھتے ہوئے ریسرچ کریں ۔اس کے علاوہ جوَ اور جئی کی فصلات پرتحقیق بھی وقت کا تقاضا ہے کیونکہ ہمارے ہاں جو َکی پیداوار بہت کم ہے ۔انہوں نے زرعی سائنسدانوںسے کہا کہ زرعی تحقیق میں غیر ذمہ داری کی کوئی گنجائش نہیں ہے جبکہ سائنسدانوں کی محنت کے نتیجے میں گندم زیادہ ہوگی تو ملکی عزت اور وقار میں اضافہ ہوگا جس سے زرعی سائنسدانوں کی بھی عزت افزائی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی ادارہ گندم کی طرف سے آئندہ سال گندم پر کئی تجربات کئے جائیں گے جن کے لیے ایرڈزون ریسرچ انسٹیٹیوٹ بھکر، ریجنل ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بہاول پور ، بارانی زرعی تحقیقاتی ادارہ چکوال، سمٹ ، ہارویسٹ پلس اور اکارڈاکے زرعی سائنسدانوںکا تعاون بھی حاصل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان تجربات میں درجہ حرارت میں تبدیلی ، خشک سالی ، بے وقت بارشوں ، قدرتی آفات کے گندم پر اثرات کے حوالے سے تجربات کئے جائیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ گندم کے وقت کاشت، بیماریوںاور کیڑوں کے نقصانات سے بچنے کے لیے بھی تجربات کئے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ورائٹی ڈویلپمنٹ کے ساتھ کراپنگ پیٹرن میں تبدیلی ، کھڑی کپاس میں گندم کی کاشت اور زیروٹیلج طریقہ کاشت پر بھی تحقیقی کام جاری ہے اور اس پر مزید نئے تجربات کئے جائیں گے اس کے علاوہ گزشتہ سال کی طرح زرعی سائنسدانوں اور طلباءکی کپیسٹی بلڈنگ کے لیے تربیتی پروگرام اور ورکشاپس کا انعقاد بھی کیا جائےگا ۔