امریکااب بھی ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کو ایک دہشت گرد گروہ سمجھتا ہے۔ نیڈ پرائس
محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے واضح کیاہے کہ امریکااب بھی ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کو ایک دہشت گرد گروہ سمجھتا ہے۔ پرائس نے بتایا کہ آپ نے وزیرخارجہ انٹونی بلینکن سے سنا ہوگاکہ پاسداران انقلاب نے دہشت گردحملے کیے ہیں۔ہمیں واضح طور پرسپاہ پاسداران انقلاب سے درپیش خطرے پر تشویش لاحق ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایران اور مغرب کے درمیان 2015ء میں طے شدہ جوہری معاہدے کی بحالی کو روکنے والے اہم نکات میں سے ایک تہران کا یہ مطالبہ ہے کہ پاسداران انقلاب کی دہشت گردی کی نامزدگی منسوخ کی جائے اور اس کا نام امریکا کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج کیا جائے۔نیڈپرائس نے کہا کہ محکمہ خارجہ کے اقدامات سے ثابت ہوتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ پاسداران انقلاب سے لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے کام کررہی ہے۔ترجمان نے بتایا کہ جنوری 2021 سے اب تک بائیڈن انتظامیہ نے ایران پر107 پابندیاں عاید کی ہیں،ان میں سے 86 پابندیاں پاسداران انقلاب یا اس سے وابستہ اداروں پرلگائی گئی ہیں۔ ہم پاسداران انقلاب اورخطے میں اپنے شراکت داروں کے لیے ممکنہ طور پر پیدا ہونے والے خطرے کا مقابلہ کرنے کی غرض سے ان سے مل کرکام کر رہے ہیں۔اس کے باوجود امریکا اب بھی ایران کے ساتھ معاہدے کی بحالی کی امید کررہا ہے۔بائیڈن انتظامیہ کے حکام کا خیال ہے کہ اس معاہدے میں واپسی ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے’’تصدیقی اور مستقل طور پر‘‘روک دے گی۔ویانا میں مذاکرات میں کئی ہفتے کے تعطل کے باوجود امریکا اب بھی سمجھتا ہے کہ معاہدہ اس کے بہترین مفاد میں ہے۔پرائس نے کہا کہ مئی 2022 تک ہم یہ سمجھتے رہے ہیں کہ اگرجوہری معاہدے کے تحت ایران پر دوبارہ پابندیاں عاید کی گئیں تواس کے جوہری پروگرام کو دوبارہ ایک خانے میں ڈال دیا جائے گا اورہفتوں پر قائم بریک آؤٹ کا وقت کافی لمبا ہو جائے گا۔انھوں نے مزید کہا: "یہ ناقابل قبول ہے کہ بریک آؤٹ کا وقت اتنا کم ہے۔ صدر بائیڈن کا یہ عزم ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کی اجازت نہیں دی جائے گی۔لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ امریکااوراس کے اتحادی ضرورت پڑنے پر’’دوسرے ذرائع کو بروئے کار‘‘لائیں گے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ ایران کبھی جوہری ہتھیار نہیں بنائے گا۔اگر ویانا میں مذاکرات کے نتیجے میں کوئی معاہدہ طے نہیں پاتا ہے توامریکا اپنے شراکت داروں اور اتحادیوں کے ساتھ متبادل منصوبوں پر بھی تبادلہ خیال کررہا ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ کبھی یقینی تھا اور نہ کبھی واضح تھا کہ آیا ہم باہمی طور پرتعمیل کی طرف لوٹ سکیں گے یا نہیں، لہٰذا ہم ہمیشہ اپنے شراکت داروں کے ساتھ ہنگامی منصوبہ بندی میں مصروف رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے تحت جوہری توانائی کے عالمی ادارے (آئی اے ای اے) کے سربراہ کے اس بیان کے بارے میں پوچھے جانے پر کہ ایران ماضی کی جوہری سرگرمیوں کے بارے میں سامنے نہیں آرہا ہے، پرائس نے کہا کہ امریکااس معاملے پر ایجنسی کے ساتھ قریبی رابطے میں رہے گا۔ان کا کہنا تھاکہ لیکن ہم آئی اےای اے کے ساتھ بہت قریبی شراکت داری جاری رکھیں گے تاکہ یہ یقینی بنایاجا سکے کہ ایران اپنے وعدوں پرعمل پیرا رہے۔نیز وہ جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے قابل نہ ہو سکے۔