فضل اللہ: سوات کے ملاریڈیو سے بین الاقوامی تنازع تک
غیرملکی ذرائع کے مطابق پاکستان کی وادی سوات سے تعلق رکھنے والے شدت پسند مولوی فضل اللہ 2013 میں تحریک طالبان کے سربراہ مقرر ہوئے تو ان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ سابق قائد حکیم اللہ محسود سے زیادہ خطرناک اور زیادہ پرتشدد رجحان کے مالک ہیں۔مولوی فضل اللہ کے دور میں جہاں سوات کی طالبہ ملالہ یوسفزئی کو حملے میں نشانہ بنایا گیا وہیں پشاور میں بچوں کے سکول پر حملے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھا دیا اور پاکستان میں شدت پسندوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائیوں کے مطالبات شدت پکڑ گئے۔اگرچہ پاکستان قبائلی علاقوں کو شدت پسندوں سے صاف کرنے کے لیے کارروائیوں میں شدت لایا لیکن مولوی فضل اللہ افغانستان میں موجود ہونے کی وجہ سے پاکستانی سکیورٹی فورسز کی پہنچ سے ہمیشہ دور رہے اور پاکستان کی جانب سے امریکی اور افغان حکام سے ان کے خلاف کارروائی کرنے کے مطالبات کیے جاتے رہے تھے۔فضل اللہ 1974 میں سوات میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق یوسفزئی قبیلے کی بابوکارخیل شاخ سے تھا اور وہ ایک پاؤں سے معمولی معذور بھی تھے۔تحریک نفاذ شریعتِ محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد کے داماد مولوی فضل اللہ نے جہانزیب کالج سوات سے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے تین درجوں تک دینی تعلیم بھی حاصل کی تھی تاہم وہ زیادہ تر صوفی محمد کی صحبت میں رہے جہاں وہ درس و تدریس کے کاموں میں شرکت کرتے رہے۔