برطانوی سائنسدانوں کا دل کے جان لیوا مرض کے جینز کی شناخت کر لینے کا دعویٰ
برطانوی سائنسدانوں نے دل کے جان لیوا مرض پلمنری آرٹیریئل ہائپرٹینشن کے جینز کی شناخت کرلینے کا دعویٰ کیا ہے،اس مرض سے متاثرہ افراد میں سے 50 فیصد پانچ سال کے اندر اندر ہی مر جاتے ہیں لیکن ان افراد میں اس بیماری کی وجہ کے بارے میں لوگوں کو بہت کم ہی معلوم تھا۔ نیچر کمیونیکیشن نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تازہ تحقیق کے مطابق اس کامیابی سے اس بیماری کی جلد تشخیص کے ساتھ ساتھ علاج کے نئے طریقہ کار میں بھی مدد ملے گی۔اس وقت برطانیہ میں پلمنری آرٹیریئل ہائپرٹینشن (پی اے ایچ) سے متاثرہ افراد کی تعداد 6500 ہے اور اس کی وجہ سے دل سے پھیپھڑوں تک خون کو منتقل کرنے والی شریانیں سخت اور موٹی ہو جاتی ہیں جو حرکت قلب بند ہونے کا باعث بنتی ہیں۔زیادہ تر اس بیماری کی تشخیص ان افراد میں ہوتی ہے جو دل اور پھیپھڑوں کی کسی دوسری بیماری میں بھی مبتلا ہوں۔ لیکن یہ بیماری کسی بھی عمر کے فرد کو ہو سکتی ہے اور اس کی کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے۔اس کا واحد علاج دل اور خاص طور پر پھیپھڑوں کا ٹرانسپلانٹ ہے، لیکن اعضا کے ٹرانسپلانٹ کے لئے انتظار کرنا پڑتا ہے اور اکثر مریض کا جسم انھیں مسترد کر دیتا ہے خاص طور پر پھیپھڑوں کے معاملے میں اس کے خدشات زیادہ ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے اس بیماری کے لیے جینوم کا جائزہ لے کر اب تک کی سب سے بڑی تحقیق کی ہے جس کے لیے سائنسدانوں نے ان ایک ہزار سے زائد پی اے ایچ کے مریضوں کے ڈی این اے کا جائزہ لیا جنھیں اس بیماری کی وجہ معلوم نہیں تھی۔انھیں معلوم ہوا کہ ان افراد میں پانچ جینز میں تغیرات اس بیماری کی وجہ ہیں۔ ان میں وہ چار جینز بھی شامل ہیں جن کے بارے میں اس سے پہلے سمجھا جاتا تھا کہ وہ اس بیماری کی وجہ نہیں ہیں۔ محقیقین کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس بیماری سے متاثرہ افراد میں یہ جینز جسمانی خلیوں کی بناوٹ اور ان کے کام کرنے کے لیے ضرور پروٹینز بنانے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔برٹش ہارٹ فاونڈیشن کے پروفیسر نک موریل کے مطابقان نئے جینز کی ساخت اور تغیرات کی شناخت کرنے سے اس بیماری کی وجہ معلوم ہوتی ہے۔انھوں نے مزید بتایا کہ اس سے علاج کے نئے طریقوں میں مدد ملتی ہے ۔پروفیسر موریل نے بتایا کہ جینز پر ایسی تحقیقات سے ہمیں نادر امراض کے بارے میں جاننے میں مدد ملتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اکثر نادر امراض میں مبتلا لوگ کا علاج کرنا مشکل ہوتا ہے۔ یونیورسٹی آف کینٹ کے جینز کے شعبے کے پروفیسر ڈیرن گریفن جو کہ خود تو اس تحقیق میں شامل نہیں تھے لیکن ان کا کہنا ہے کہ جینوم پراجیکٹ میں یہ تحقیق ایک بڑی کامیابی ہے۔