سدھو،ثانیہ اور کمل ہاسن انتہاپسندوں کے نشانے پر: کپل شرما داؤ پر
چندھی گڑھ: بھارتی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ’کپل شرما شو‘ کے میزبان کپل شرما نےاپنے ساتھی میزبان نوجوت سنگھ سدھو کی حمایت کردی ہے جب کہ ’سدھو پاجی‘ کے نام سے معروف سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو نے واضح طور پر کہا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے متعلق جو کچھ کہا ہے اس پرکل، آج اور آگے بھی قائم رہوں گا۔ بھارتی ٹی وی کے پروگرام کپل شرما شو کے شریک میزبان نوجوت سنگھ سدھو کو پلوامہ واقعہ کے بعد دیے جانے والے بیان کو بنیاد بنا کر شو کی میزبانی سے علیحدہ کردیا گیا تھا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق کپل شرما نے نوجوت سنگھ سدھو کے ساتھ اپنائے جانے والے رویے کو نامناسب قرار د یتے ہوئے کہا ہے کہ سدھو کے ساتھ جو ہوا وہ ٹھیک نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ حکومتی پالیسی کی حمایت کرتے ہیں اور خواہش مند ہیں کہ ایسے اقدامات ہونے چاہئیں کہ پلوامہ جیسے واقعات کا اعادہ نہ ہو مگر سدھو کو شو سے نکالنا حل نہیں ہے۔ کپل شرما نے باقاعدہ استفسار کیا کہ کیا نوجوت سنگھ سدھو کو شو سے علیحدہ کرنا مسئلے کا حل ہے؟ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر انہیں شو سے علیحدہ کرنے سے مسئلہ حل ہوتا تو وہ ایسے آدمی ہیں کہ ازخود شو سے الگ ہوجاتے۔ انہوں نے زور دیا کہ مسئلے کی طرف جانا چاہیے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق چندھی گڑھ میں منعقدہ تقریب میں کپل شرما نے کہا کہ ابھی نوجوت سدھو کی کچھ اور مصروفیات ہیں جس کی بنا پر وہ ہمارے شو کا حصہ نہیں ہیں اور ان کی عدم موجودگی میں ارچنا پورن سنگھ ہونے والی شوٹنگ میں شامل ہیں۔ بھارتی نشریاتی ادارے زوم ٹی وی نے پہلے ہی اطلاع دی تھی کہ سدھو کو علیحدہ کرکے ارچنا کو شریک میزبان بنایا جارہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق سدھو کو ابھی تک باضابطہ شو سے علیحدگی کے متعلق نہیں بتایا گیا ہے۔ نوجوت سنگھ سدھو کی حمایت میں وزیراعلیٰ پنجاب امریندر سنگھ نے بھی گزشتہ روز بیان دیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ان کے بیان کا مقصد قطعی یہ نہیں ہے کہ وہ محب وطن نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنی کابینہ کے رکن سدھو کے متعلق کہاکہ وہ کرکٹر ہیں جب کہ میں فوجی ہوں تو دیکھنے کے انداز مختلف ہیں مگر وہ حقیقت نہیں ہے جو ان کے خلاف کہی جارہی ہے۔ پلوامہ واقعہ کے فوری بعد نوجوت سنگھ سدھو جو بھارتی پنجاب میں وزیر اور کانگریس کے رکن بھی ہیں کی جانب سے منظر عام پر آنے والے بیان کو بنیاد بنا کرانتہاپسند ہندوؤں کی جانب سے باقاعدہ پروپیگنڈہ مہم شروع کی گئی تھی کہ اگر کپل شرما شو سے سدھو کو علیحدہ نہ کیا گیا تو شو کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے گا جس کے بعد کہا جاتا ہے کہ ٹی وی چینل انتظامیہ نے پروڈکشن ہاؤس کو احکامات دیے کہ سدھو کو شو سے فی الفورعلیحدہ کردیا جائے۔ کپل شرما شو کے متعلق بھارتی ذرائع ابلاغ ہی میں گزشتہ دنوں یہ خبر بھی آئی تھی کہ چونکہ کامیڈین کپل شرما کے رویے اورساتھی فنکاروں سے ناچاقی کے باعث کوئی بھی پروڈیوسر فنانس کرنے پرآمادہ نہیں تھا تو بالی ووڈ کے اسٹار اداکار سلمان خان نے شو دوبارہ شروع کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ سلمان خان کی شرکت کے باوجود جب بھارت میں سب سے زیادہ ریٹنگ لینے والا کپل شرما شو ایک مرتبہ پھرشروع ہوا تو اس میں چار اہم اوربنیادی نوعیت کے کردار ادا کرنے والے فنکاروں نے شمولیت اختیار نہیں کی جس کی وجہ سے مداحوں کو کافی مایوسی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ میں اب یہ اطلاعات زیرگردش ہیں کہ نوجوت سنگھ سدھو کو کپل شرما شو سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ بالی ووڈ کے سلطان سلمان خان نے ہی کیا تھا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق سلمان خان، کپل شرما شو کے فنانسر گردانے جاتے ہیں۔ عملاً یہ شو سلمان خان کے پروڈکشن ہاؤس ’ایس کے ایف‘ اور کپل شرما کے پروڈکشن ہاؤس ’کے نائن‘ سے مشترکہ طور پر ریلیز کیا جاتا ہے۔ کپل شرما شو کے دوبارہ شروع ہونے پر بالی ووڈ کے جب ان اسٹارز نے شرکت کی جو ماضی میں کبھی شو کا حصہ نہیں بنے تھے تو اس کی بڑی وجہ بھی سلمان خان کو ہی قرار دیا گیا۔ سلمان خان کے حوالے سے یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ انہوں نے پلوامہ واقع کے بعد ممتاز پاکستانی گلوکار عاطف اسلم کا گانا اپنی پروڈکشن میں بننے والی فلم ’نوٹ بک‘ سے نکال دیا ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق انہوں نے ہدایت دی ہے کہ ریکارڈ شدہ گانا دوبارہ کسی بھارتی گلوکار کی آواز میں ریکارڈ کیا جائے تاکہ اسے فلم میں شامل کیا جاسکے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق سلمان خان اداکار کے ساتھ ساتھ بزنس مین بھی ہیں اور وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ انہیں فلم میں نقصان اٹھانا پڑا اس لیے انہوں نے نہ صرف سدھو کی شو سے علیحدگی کا فیصلہ کردیا بلکہ عاطف اسلم کا گانا بھی فلم سے نکال دیا کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ انتہاپسند ہندوؤں کی مخالفت مول لینے کا مطلب کیا ہے؟ ممتاز بھارتی شاعر جاوید اختر اوران کی اہلیہ نے بھی گزشتہ دنوں اپنا طے شدہ دورہ پاکستان بھی اسی وجہ سے منسوخ کردیا تھا۔ پلوامہ واقعہ کے بعد سے متعصب اور شدت پسند مودی سرکار کے رویے کے باعث نہ صرف بھارت بلکہ مقبوضہ کشمیر کی وادی میں بھی ظلم و ستم کی انتہا کردی گئی ہے۔ آئندہ عام انتخابات میں اپنی سیاسی ناکامی کو دیکھنے والی بی جے پی جذباتی اور شدت پسند ہندوؤں کی آنکھوں پر نفرت، تعصب اورانتقام کی پٹیاں باندھنے میں مصروف ہے تاکہ جذباتی طور پر مغلوب کرکے اپنی انتخابی کامیابی کی راہ ہموار کرسکے۔ بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی اور پرتشدد رویے کے باعث اب بھارتی فلموں کے معروف اداکار کمل ہاسن نے بھی آواز بلند کردی ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق انہوں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ پہلے ہندو شدت پسند بات کرتے تھے لیکن اب تشدد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ اب اس بات پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ جیت سچائی کی ہوتی ہے کیونکہ اب جیت صرف طاقت کی ہوتی ہے۔ جنوبی بھارت سے تعلق رکھنے والے فنکار کمل ہاسن نے ایک جگہ خطاب کرتے ہوئے باقاعدہ استفسار کیا کہ مودی سرکارکشمیر میں رائے شماری کیوں نہیں کراتی ہے؟ وہ کس بات سے خوفزدہ ہے؟ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق کمل ہاسن کے سوالات نے انتہاپسند ہندو سرکار اورحکمران جماعت کو سیخ پا کردیا۔ شدت پسند اورانتہاپسند ہندو تنظیم آرایس ایس کے راکیش سنہا نے جواباً کہا کہ کمل ہاسن بے ہندو تہذیب کی بے عزتی کی ہے اس لیے انہیں معافی مانگنی چاہئیے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق کمل ہاسن کے خلاف بھی بائیکاٹ مہم شروع کردی گئی ہے۔ یہ مہم بھی انتہاپسند ہندو چلارہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق فی الوقت عقل، دلیل، منطق اور ہوش کی بدترین دشمنی میں مبتلا بی جے پی کی مودی سرکار ہر اس شخص کی مخالفت کرے گی جو امن و آشتی کی بات کرے گا، صلح جوئی کا راستہ دکھائے گا اور قانون کی بالادستی کا درس دے گا کیونکہ یہ اس کے بنیادی ایجنڈے کے خلاف ہے۔ بھارت میں انتہاپسند ہندوؤں نے نہ صرف اپنے ہم وطن مسلمانوں کی زندگی پلوامہ واقعہ کے بعد سے جہنم بنادی ہے بلکہ مقبوضہ کشمیر میں بھی عرصہ حیات مسلمانوں پرمزید تنگ کردیا ہے۔ مسلمانوں کا مجموعی طورپر بھاری نقصان ہوچکا ہے۔ مبصرین کے مطابق اب دیکھنا یہ ہے کہ نوجوت سنگھ سدھو، ثانیہ مرزا اورکمل ہاسن کے بعد کیا عقل و دانش اورعلم و حکمت کی باتیں کرنے والے کپل شرما اورامریندر سنگھ بھی اسی شدت کے ساتھ انتہاپسند ہندوؤں کی نفرت و تضحیک کا نشانہ بنیں گے؟ بھارت کے انتہاپسند ہندو ثانیہ مرزا کے خلاف بھی باقاعدہ مہم شروع کرچکے ہیں۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے علم سیاسیات کے اساتذہ کے مطابق اگر فوری طور پرمودی سرکار اور بی جے پی کی جانب سے شروع کی گئی نفرت انگیز مہم کو نہ روکا گیا تو کہہ نہیں سکتے کہ آئندہ عام انتخابات تک نجانے مزید کتنے افراد کا بھارت کو نقصان پہنچ جائے گا۔