سپریم کورٹ نے زینب قتل کی تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہارکردیا

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں خصوصی بینچ نے زینب قتل پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ جی آئی ٹی سربراہ آر پی او ملتان محمد ادریس نے عدالت کو تفتیش کے بارے میں آگاہ کیا۔ سربراہ جے آئی ٹی کے مطابق جون دوہزار پندرہ سے آٹھ واقعات پیش آئے۔ ان واقعات میں ایک ہی شخص ملوث ہے جس کا ڈن این اے ملا ہے یہ آٹھ واقعات تین تھانوں کی حدود میں پیش آئے۔ پہلے دو واقعات تھانہ صدر ڈویژن میں پیش آئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وہ کون سا ایس ایچ او ہے جو تین سال سے تعینات ہے۔ سنا ہے لوگوں کی شکایات کے باوجود اسے ہٹایا نہیں گیا۔ سربراہ جے آئی ٹی نے عدالت کو بتایا کہ آٹھ سو کے قریب مشتبہ افراد کے ڈی این اے کئے جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ صرف ایک ہی رخ پر تفتیش کر رہے ہیں۔اس طرح تو اکیس کروڑ لوگوں کا ڈی این اے کرنا پڑے گا۔ جسٹس منظور احمد ملک کا کہنا تھا کہ پولیس ڈی این اے سے باہر نکل کر بهی تفتیش کرے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ معصوم بچی کے ساته جو ظلم ہوا ہے، وہ ناقابل بیان ہے۔ اگر پولیس دوہزار پندرہ میں اتنی سنجیدہ ہوتی تو آج آٹه بچیاں زیادتی کے بعد قتل نہ ہوتیں۔ زیادتی کے آٹه مقدمات کے حالات و واقعات یکساں ہیں تو اس رخ پر بهی تفتیش کریں۔ عدالت نے تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کردیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیس کی تحقیقات میں دیر کسی بھی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ دوران سماعت چیف جسٹس کے استفسار پر زینب کے والدین نے تحقیقات پر اطمینان کا اظہار کیا۔ جسٹس ثاقب نثار نےدوران سماعت قصور میں ہی درندگی کا شکار ہونیوالی بچی کائنات کے بیرون ملک علاج پر ڈاکٹرز سے تجاویز طلب کرلیں