فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق 11 جولائی کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق 11 جولائی کی عدالتی کارروائی کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا، عدالت نے قراردیا کہ جانتے ہوئے بھی درخواست گزاروں نے زیادہ وقت پرائیوٹ وکیل کرنے کے خلاف دلائل پر ضائع کیا، عدالت وزارت داخلہ کی طرف سے پرائیویٹ وکیل مقررکرنے کے خلاف متفرق درخواست مسترد کرتی ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق 11 جولائی کی عدالتی کارروائی کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا گیا۔ تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ وزارت داخلہ کی طرف سے پرائیویٹ وکیل پیش ہونے کے خلاف متفرق درخواست دائر کی گئی، گرمیوں کی چھٹیاں آئندہ ہفتے سے شروع ہو رہی ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی درخواست گزاروں نے زیادہ وقت پرائیوٹ وکیل کرنے کے خلاف دلائل پر ضائع کیا۔ عدالتی حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ عدالت وزارت داخلہ کی طرف سے پرائیویٹ وکیل مقرر کرنے کے خلاف متفرق درخواست مسترد کرتی ہے، اس کے علاوہ تحریری حکم نامے میں جسٹس شاہد وحید کے اضافی نوٹ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ جسٹس شاہد وحید نے اضافی نوٹ میں کہا کہ اٹارنی جنرل نے کہا کیس کے فوجداری تکنیکی پہلو کے سبب عدالت کی معاونت کیلئے پرائیوٹ وکیل کیا گیا، اٹارنی جنرل کی ایماندارانہ رائے قابل ستائش ہے، کسی انفرادی شخص کو بچانے کے بجائے مفاد عامہ کے تحت پرائیوٹ وکیل کیا جا سکتا ہے۔ کیس کا پس منظر یاد رہے کہ 8 جولائی کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مدوخیل نے ریمارکس دیے کہ قائد اعظم نے جہاں زندگی کے آخری ایام گزارے، اسے آگ لگائی گئی۔ یاد رہے کہ 4 مئی کو سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس شاہد وحید نے فوجی عدالتوں کے مقدمات کی جلد سماعت کی ضرورت پر روشنی ڈالی تھی کیونکہ اس مقدمے میں جن مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے ان میں شہریوں کی زندگی اور ان کی آزادی شامل ہے۔ 7 مئی کو فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف کیس کی جلد سماعت کے لیے سپریم کورٹ میں متفرق درخواست دائر کردی گئی تھی۔ واضح رہے کہ 24 اپریل کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیل ججز کمیٹی کو واپس بھجوا دی تھی۔ 28 مئی کو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی بینچ نے اپنے 13 دسمبر 2023 کے حکم نامے میں ترمیم کی تھی جس کے تحت 23 اکتوبر کے اس فیصلے کو معطل کردیا گیا تھا جس نے 9 مئی کے تشدد میں ملوث شہریوں کے خلاف فوجی ٹرائل کو کالعدم قرار دیا تھا۔ ترمیم شدہ حکم نامے کے مطابق ایک ہدایت جاری کی گئی تھی کہ فوجی عدالتیں ٹرائل شروع کر سکتی ہیں لیکن وہ حکومت کی طرف سے قائم کردہ انٹرا کورٹ اپیلوں کے زیر سماعت ہونے تک کسی ملزم کو سزا یا بری نہیں کریں گی۔ 8 اپریل کو وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار جیل جانے والے 20 افراد کو رہا کر دیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی سزا کا بڑا حصہ کاٹنے کے بعد عید الفطر اپنے اہل خانہ کے ساتھ منا سکیں، ان کی سزا کی مدت آرمی چیف نے معاف کر دی تھی۔ واضح رہے کہ 25 مارچ کو فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیوں پر سماعت کے دوران عدالت نے اٹارنی جنرل سے زیر حراست 103 افراد کی تفصیلات طلب کی تھیں۔