سیاست، ریاست اور عدلیہ کے درمیان جاری کشمکش 26 ویں آئینی ترمیم سے ختم نہیں ہوگی۔لیاقت بلوچ
نائب امیر جماعتِ اسلامی پاکستان ، مجلسِ قائمہ سیاسی قومی امور کے صدر لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ سیاست، ریاست اور عدلیہ کے درمیان جاری کشمکش 26 ویں آئینی ترمیم سے ختم نہیں ہوگی۔ عدم استحکام اور عدم اعتماد کے نئے پہلو پیدا ہوتے رہیں گے۔ حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی تقسیم نے مِل کر آئین اور آزاد عدلیہ کا کریہ کیرم کیا ہے۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ اسی وقت آزاد ہوگی جب تمام اسٹیک ہولڈرز آئین کی ہر طرح سے پابندی کریں۔ عدلیہ کی آزادی پر شب خون، عدلیہ کی تقسیم کی وجہ بنی ہے۔ آئین سے انحراف ملک کے لیے مشکلات لاتا ہے۔ آئین کی پابندی میں سب کی عزت ہے۔ حکومت نے ریاستی جبر سے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت انجینئر کرلی۔ پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت بھی فارم 47 کا پارٹ ٹو ہے۔ زبردستی کی آئینی ترامیم ملک میں استحکام نہیں اسٹیبلشمنٹ کی طاقت بن گئی ہے اور حکومت کے لیے نِت نئی بحرانی صورتِ حال پیدا ہوگی۔ اپوزیشن جماعتیں پہلے دِن ہی آئینی ترامیم کو مسترد کردیتیں تو آئین محفوظ رہتا۔ پی ٹی آئی کو آئینی ترامیم کے لیے مذاکرات میں اِنگیج رکھ کر بدنیتی پر مبنی قانون سازی پر پردہ ڈالا گیا ہے۔ آزاد، باوقار اور اصولوں پر کاربند پاکستان کے لیے عدالتی نظام اور قوانین کی نیک نیتی سے اصلاحات ناگزیر ہیں، جماعتِ اسلامی آئین اور قوانین میں اصلاحات کی سفارشات تیار کرے گی۔لیاقت بلوچ نے ملتان میں جماعتِ اسلامی کے رہنما ڈاکٹر صفدر ہاشمی کی بیٹی کی شادی تقریب میں خطاب اور بعد ازاں صحافیوں کے سوال کے جواب میں کہا کہ جماعتِ اسلامی جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبہ کی بحالی کی حمایت کرتی رہی ہے۔ صوبائی اور علاقائی حقوق کے لیے قوم پرست جماعتوں کی پونم نے کچھ عرصہ آواز بلند کی لیکن خاموش اور غائب ہوگئے۔ عملا ملک کی صورتِ حال کو سنبھالنے اور عوامی سطح پر اطمینان اور استحکام، فیڈریشن کی مضبوطی اور عوام کو ہر طرح کی سہولیات مہیا کرنے کے لیے قومی قیادت اور پارلیمنٹ کو انتظامی یونٹ چھوٹے کرنے پر غور کرنا ہوگا۔ انتظامی تقسیم قوم پرستی، لسانی اور ملک کو نقصان دینے والی فکر نہیں بلکہ ملک، عوام اور انتظامی ضروریات کے پیشِ نظر کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ جب اضلاع، تحصیل، تعلقہ بڑے ہوتے ہیں تو اس کی بھی تقسیم لازم ہوجاتی ہے۔ اِسی طرح ریاستی، انتظامی ضروریات کو جاننا اور حل نکالنا بھی قومی فرض ہے۔ صوبائی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں آئین کے لیے طریقہ کار کے مطابق بحث اور اتفاقِ رائے پیدا کیا جاسکتا ہے۔ پاور پالیٹکس میں مفادات کی چکر بازی نے عوام کو کھنگال اور نوجوانوں کو مایوس کردیا ہے۔ پاکستان کو سیاسی، اقتصادی اور انتظامی بحرانوں سے نکالنے کے لیے قومی سیاسی، جمہوری قیادت کو تنگ نظری ترک کرکے قومی جذبہ سے قومی مسائل حل کرنا ہونگے۔