پارلیمنٹ قانون سازی کر دے تو اس پر عمل کرنا لازمی ہوتا ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جب مقننہ قانون سازی کر دے تو اس پر عمل کرنا لازم ہوتا ہے، عدالت اور ہم سب کا کام پارلیمنٹ کے بنائے قانون پر عمل کرنا ہے۔ انکم ٹیکس کمشنر کے ٹیکس کی تشخیص کے اختیار سے متعلق نظر ثانی کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی، ایڈشنل کمشنر ان لینڈ ریونیو پشاور سہیل احمد عدالت میں پیش ہوئے۔ دوران سماعت سپریم کورٹ نے ایف بی آر کو اپنے تمام آرڈرز اور نوٹیفکیشنز ویب سائٹ پر اپلوڈ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس وصولی کے سب سے بڑے ادارے ایف بی آر کو شفاف ہونا چاہیے، ایف بی آر شفاف نہیں ہوگا تو عوام کا اعتماد کیسے حاصل کرے گا؟، ایف بی آر شفاف نہیں ہو گا تو عوام کو ٹیکس ادائیگی پر آمادہ کیسے کرے گا؟۔ سپریم کورٹ نے انکم ٹیکس کمشنر کو عدالت کے وقت کے ضیاع پر 10 ہزار روپے جرمانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ایک ہفتے میں جرمانہ کسی فلاحی ادارے کو ادا کر کے رسید جمع کروائی جائے، سپریم کورٹ نے کمشنر ان لینڈ ریونیو ایف بی آر کی نظر ثانی درخواست خارج کر دی۔ وکیل ایف بی آر نے کہا کہ کمشنر ان لینڈ ریونیو پشاور نے ٹیکس کی تشخیص سے متعلق اختیارات ڈپٹی کمشنر کو دیے، اس پر جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کمشنر ان لینڈ ریونیو پشاور نے اپنے تمام اختیارات ڈپٹی کمشنر کو کیسے منتقل کر دیے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 122 کے تحت کمشنر اپنے اختیارات کسی کو دینے کا مجاز نہیں، اختیارات منتقلی کا گزٹ نوٹیفکیشن کہاں ہے؟، جس پر وکیل ایف بی آر نے کہا کہ اختیارات منتقلی کا آرڈر ہوا تھا لیکن اس کو پبلش نہیں کیا گیا۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایف بی آر اپنے آرڈرز چھپا کر کیوں رکھتا ہے؟، ایف بی آر کیا آرڈرز کی اشاعت اس لیے نہیں کرتا کہ مخصوص کیسز میں استعمال کر سکے؟، یہ کیس صرف عدالت کا وقت ضائع کرنے کی کلاسک مثال ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے اپنے 2022ء کے فیصلے میں درست کہا تھا کہ کمشنر صرف ٹیکس کا تعین کر سکتا ہے، اختیارات منتقل نہیں کر سکتا۔ عدالت نے سپریم کورٹ کے حکم نامے کی کاپی کمشنر ایف بی آر کو ارسال کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ حکمنامہ ایف بی آر کے تمام ڈائریکٹرز اور حکام کو بھی ارسال کیا جائے۔