فلسطینیوں کے حقوق کی جنگ،بڑی کامیابی،دنیا کے سب سے بڑے ادارے کا فیصلہ،اسرائیل کی ہار
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے دستبردار ہو جائے اور فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیا۔ قرارداد آٹھ کے مقابلے میں 157 ووٹوں سے منظور ہو گئی جس میں امریکہ اور اسرائیل نے مخالفت میں ووٹ دیا اور سات ارکان غیر حاضر رہے۔ اس طرح اسمبلی نے "بین الاقوامی قانون کے مطابق اسرائیل اور فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے غیر متزلزل حمایت کا اظہار کیا۔ اسمبلی نے کہا، دونوں ریاستوں کو "1967 سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر ایک دوسرے کے برابر امن اور سلامتی کے ساتھ رہنا چاہیے۔ دو ریاستی حل کو حقیقت بنانے کی سفارتی کوششوں میں نئی جان ڈالنے کے لیے اسمبلی نے جون 2025 میں نیویارک میں ایک اعلیٰ سطحی بین الاقوامی اجلاس طلب کیا ہے جس کی مشترکہ صدارت فرانس اور سعودی عرب کریں گے۔ اسمبلی نے "فلسطینی عوام کے ناقابلِ تنسیخ حقوق اور بنیادی طور پر حقِ خود ارادیت اور ان کی آزاد ریاست کے حق" کے حصول کا مطالبہ کیا۔اقوام متحدہ مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی کو اسرائیل کا غیر قانونی قبضہ سمجھتی ہے۔اسرائیل نے 1967 میں غزہ کی پٹی پر قبضہ کیا تھا اور 2005 تک وہاں اپنی فوجیں اور بستیاں قائم رکھی تھیں۔ اگرچہ وہ واپس چلا گیا ہے لیکن اسے اب بھی وہاں قابض طاقت سمجھا جاتا ہے۔بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے حالیہ فیصلوں کے حوالے سے اسمبلی نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ "مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اپنی غیر قانونی موجودگی کو جلد از جلد ختم کرے" اور آباد کاری کی تمام نئی سرگرمیاں روک دے۔فلسطینی ایلچی ریاض منصور نے کہا کہ فلسطین کا سوال اقوامِ متحدہ کے آغاز سے ہی اس کے ایجنڈے پر رہا ہے اور یہ اس کی صداقت اور اختیار اور بین الاقوامی قانون پر مبنی نظام کے وجود کا اہم ترین امتحان ہے۔یہ 1947 میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد تھی جس نے برطانوی حکومت کے ماتحت فلسطین کو دو ریاستوں ایک عرب اور ایک یہودی میں تقسیم کیا تھا ۔لیکن صرف اسرائیل کے قیام کا اعلان 14 مئی 1948 کو کیا گیا۔ اس سے اسرائیل اور اس کے عرب ہمسایوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔