کمسن زینب کے قاتل عمران کو کوٹ لکھپت جیل میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا
قصور میں 6سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد بے رحمی سے قتل کرنے والے مجرم عمران علی کو انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔مجرم عمران علی کو لاہور کے کوٹ لکھپت جیل میں مجسٹریٹ عادل سرور ، سپرنٹنڈنٹ جیل، میڈیکل افسران بھی کی موجودگی میں بدھ کو علی الصبح ساڑھے 5بجے تختہ دار پر لٹکایا گیا جہاں زینب کے والد محمد امین ان کے دو چچا اور ایک ماموں بھی موجود تھے، اس موقع پر جیل کے اطراف سخت انتظامات کیے گئے تھے، اینٹی رائٹ فورس، ایلیٹ فورس سمیت دیگر سکیورٹی اداروں کے اہلکار تعینات تھے ۔اس موقع پر مجرم عمران علی کے اہل خانہ بھی جیل میں موجود تھے اور سزائے موت پر عمل درآمد کے بعد نعش کا میڈیکل معائنہ کیا گیا ،جیل انتظامیہ نے عمران کی نعش اہل خانہ کے حوالے کردی اور وہ قصور روانہ ہوگئے جبکہ پولیس کی بھاری نفری بھی ان کے ہمراہ تھی۔لاہور میں مجرم عمران علی کو تختہ دار پر لٹکانے کے بعد زینب کے والد محمد امین انصاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انصاف کے تقاضے پورے ہوئے تاہم سرعام پھانسی دی جاتی تو مجرم عمران عبرت کا نشان بن جاتا، میڈیا نے ہماری آواز کو بلند کیا،قاتل عمران کا عبرتناک انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، مجرم عمران کو پھانسی پر مطمئن ہوں۔ انہوں نے کہا کہ زینب 7 سال 2 ماہ کی ہوئی، مجرم کو پھانسی زینب کی ایک چیخ کے برابر بھی سزا نہیں ہے۔امین انصاری نے کہا کہ انصاف کے لیے ہم چیف جسٹس پاکستان کے شکرگزار ہیں ، زینب کی ماں شدید صدمے سے دوچار ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے پھانسی دینے کی کارروائی میڈیا پربراہ راست دکھانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن یہ مطالبہ منظور نہیں ہوا، عمران خان نے ریاست مدینہ کا وعدہ کیا تھا اور ریاست مدینہ کا جو تصور پیش کیا گیا تھا اسے عملی جامہ پہننانے کا سنہری موقع تھا ۔لاہور روانگی سے قبل قصور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے زینب کے والد محمد امین انصاری نے کہا کہ مجرم عمران کو سرعام پھانسی نہیں دینی تھی توقانون بھی ختم کردیا جائے۔ا نہوں نے کہا کہ مجرم کوسرعام پھانسی دینے کامطالبہ کیا تھا اور قاتل کوپھانسی دینے کی لائیو کوریج کا مطالبہ بھی مسترد کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سفاک قاتل کے گھروالوں نے ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔خیال رہے کہ 12 اکتوبر کو انسداد دہشت گردی عدالت نے زینب قتل کیس کے مجرم عمران کے ڈیتھ وارنٹ جاری کیے تھے۔یاد رہے کہ زینب سمیت دیگر بچیوں کے قاتل عمران علی کو مجموعی طور پر 21 مرتبہ سزائے موت، عمر قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔پنجاب کے ضلع قصور میں جنوری 2018 میں ریپ کے بعد قتل ہونے والی 6 سالہ بچی زینب کے کیس میں لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت(اے ٹی سی)نے 17 فروری 2018 کو عمران علی پر جرم ثابت ہونے پر انہیں 4 مرتبہ سزائے موت، تاحیات اور 7 سالہ قید کے علاوہ 41 لاکھ روپے جرمانے کا فیصلہ سنایا تھا۔اسی طرح عدالت نے دوسرے مقدمے کائنات بتول کیس میں مجرم کو 3 بار عمر قید اور 23 سال قید کی سزا سنائی تھی، ساتھ ہی عدالت نے مجرم کو 25 لاکھ جرمانہ اور 20 لاکھ 55 ہزار دیت ادا کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔یاد رہے کہ عدالت 5 سالہ تہمینہ،6 سالہ ایمان فاطمہ، 6 سالہ عاصمہ، عائشہ آصف، لائبہ اور 7 سالہ نور فاطمہ کے ساتھ زیادتی اور قتل کیس کا فیصلہ بھی دے چکی ہے اور مجرم کو 5 مقدمات میں 21 مرتبہ سزائے موت دی گئی تھی۔ قصور کی رہائشی 6 سالہ زینب 4 جنوری 2018 کو لاپتہ ہوئی تھی اور 9 جنوری کو ایک کچرا کنڈی سے ان کی نعش ملی جس کے بعد ملک بھر میں شدید احتجاج اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے واقعے کا ازخود نوٹس لیا، اس وقت کے وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو ملزم کی فوری گرفتاری کی ہدایات جاری کی تھیں۔پولیس نے 13 جنوری کو ڈی این اے کے ذریعے ملزم کی نشاندہی کی اور ملزم کو گرفتار کیا جس کے بعد 23 جنوری کو وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے لاہور میں زینب کے والد محمد امین کی موجودگی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ملزم عمران علی کی گرفتاری کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔بعد ازاں 9 فروری کو عدالت نے گرفتار ملزم عمران علی کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کردیا تھا۔ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ملزم عمران کو زینب قتل کیس میں ڈی این اے میچ ہونے کے بعد گرفتار کیا گیا اور ملزم عمران کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا ہے۔ انسداد دہشت گردی عدالت نے 17 فروری کو زینب کو ریپ کے بعد قتل کے جرم میں عمران علی کو 4 مرتبہ سزائے موت، عمر قید اور 7 سال قید کی سزا کے ساتھ ساتھ 41 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔مجرم عمران علی نے انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی لیکن لاہور ہائی کورٹ نے مجرم عمران کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔بعد ازاں مجرم عمران نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور عدالت عظمی سے بھی مجرم عمران علی کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا اور 17 اکتوبر 2018 کو اس سزا پر عمل درآمد کر دیا گیا۔