مدارس بل کیا ۔؟ کیوں ضروری۔ ؟ فیصلہ حکومت کرے گی یاجے یو آئی ف کی لانگ مارچ
مدارس بل جوکہ ایک بار پھر پاکستانی سیاست کا نقشہ تبدیل کرسکتا ہے۔ گزشتہ روز سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ مدارس رجسٹریشن بل بنانے میں شریک شخص اب کہتا ہے اس پر اعتراضات ہیں، یہ بد نیتی اور بہت بڑی زیادتی ہے۔وفاق المدارس و دیگر کو صورتحال سے آگاہ کر رہے ہیں، سیاست میں اعتماد کا ماحول اور معتدل قسم کی سیاست چاہتے ہیں لیکن حکومت ہی لوگوں کو شدت کی طرف لے جانے کا سبب بن رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدارس رجسٹریشن بل پی ڈی ایم حکومت میں آیا تھا جس میں پیپلز پارٹی بھی شامل تھی، بل پر موجودہ صدر مملکت آصف علی زرداری بھی اس وقت اسٹیک ہولڈر تھے، اتفاق رائے سے اس وقت یہی ڈرافٹ طے ہوا تھا لیکن پھر قانون سازی رک گئی، 26ویں ترمیم کے وقت بل پر دوبارہ درخواست کی اور اتفاق رائے ہوگیا تھا، مذاکرات میں سب چیزیں طے ہوئیں آج کہاں سے اعتراضات آگئے؟۔مدارس کے معاملے پر فیصلہ قوت سے کریں گے۔انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ کے معاملے پر ہم سنجیدہ ہیں، 8 تاریخ کو اسرائیل مردہ باد کانفرنس میں اپنا مؤقف قوم کے سامنے پیش کریں گے۔
مدارس رجسٹریشن بل کی اہم شقیں یہ ہیں۔
مدارس کی لازمی رجسٹریشن،ان کے مالیاتی اور تعلیمی امور کی نگرانی،نصاب میں جدید مضامین جیسے ریاضی، سائنس، اور انگریزی کی شمولیت،مدارس کی مالی شفافیت اور نصاب کے لیے مخصوص رہنما اصولوں کی تعمیل۔
آخرمدارس بل کیا ہے اور کیوں ضروری ہے جس وجہ سے مولانا فضل الرحمان حکومت سے ناراض ہیں اور لانگ مارچ کی دھمکی بھی دے دی ہے۔
اس بل کا بنیادی مقصد مذہبی اداروں کو ایک رسمی قانونی اور انتظامی نظام کے تحت لانا ہے تاکہ شفافیت، جوابدہی اور نگرانی کو یقینی بنایا جا سکے تاہم اس بل کو مختلف قانونی اور دائرہ کار سے متعلق چیلنجز کا سامنا ہے جنہوں نے اس کی منظوری کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کی ہیں۔ صدر زرداری نے ان قانونی اعتراضات کی بنیاد پر بل کو وزیراعظم آفس واپس بھیج دیا اور دستخط سے انکار کر دیا، جس سے اس کی پیش رفت رک گئی۔ بل کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری مل چکی ہے لیکن اس کے نافذ ہونے کے لیے صوبائی اسمبلیوں کی منظوری ضروری ہے۔ یہ بل مذہبی گروہوں کو مطمئن کرنے کے سیاسی سمجھوتے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے لیکن صدر کی جانب سے قانونی اعتراضات نے واضح کر دیا کہ اس بل کو آگے بڑھانے کے لیے مزید ترامیم اور پارلیمانی کارروائی درکار ہے۔
اب یہ دیکھنا یہ ہے کہ اس بل کا فیصلہ حکومتی اعوانوں میں ہوتا ہے یاجے یو آئی ف کی لانگ مارچ کی صورت میں سڑکوں پر ۔